سورة البقرة - آیت 273

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

صدقہ ان فقراء (370) کے لیے ہے جو اللہ کی راہ میں بند ہوگئے، زمین میں (طلب رزق کے لیے) چل پھر نہیں سکتے، ناواقف لوگ ان کے سوال نہ کرنے کی وجہ سے انہیں مالدار سمجھتے ہیں، آپ انہیں ان کے چہروں سے پہچان لیں گے، وہ لوگوں سے سوال کرنے میں الحاح سے کام نہیں لیتے، اور تم جو بھی کوئی اچھی چیز (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو گے، تو اللہ بے شک اسے جانتا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٣) مستحق کون ہے ؟: ان آیات میں فقراء ومجاہدین کا ذکر ہے جو مجاہدانہ مشاغل کی وجہ سے کسب معاش سے محروم ہیں ، ان میں عفت اور پاس عزت اس قدر ہے کہ بظاہر غنی معلوم ہوتے ہیں ، مگر وہ ہیں اعانت کے مستحق ، فرمایا ان لوگوں کی بالخصوص اعانت کرو ، رسالتمآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک گروہ اصحاب صفہ کا تھا جس کا کام صحبت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرف استفادہ کرنا تھا وہ دن رات ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اکتساب ضوء میں مصروف رہتے اور ایک لمحہ غفلت ان کے نزدیک ناقابل تلافی محرومی کے حصول کا مترادف تھا وہ مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رہتے ۔ ذرائع معاش کو برروئے کار لانے کے لئے ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا ، ان لوگوں کے لئے عام مسلمانوں میں اعلان کیا کہ وہ انہیں اپنی امانتوں کا سب سے زیادہ مستحق سمجھیں ، مگر آیت کا عموم باوجود خصوص محل کے باقی ہے ، اس میں بتایا ہے کہ پیشہ ور گداگر جنہوں نے بھیک مانگنے کو ایک فن بنا لیا ہے اور وہ ہر طرح سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ وہ ہرگز اعانت کے مستحق نہیں ، اعانت کے مستحق وہ باوضع مجاہدین اور خدام دین ہیں جن کا کوئی ذریعہ معاش نہیں اور وہ رات دن خدمت دین میں مصروف ہیں ، قوم کو چاہئے کہ ان کی مدد کریں اور انہیں بےنیاز بنا دیں ، تاکہ وہ اپنا پورا وقت خدا کی راہ میں صرف کرسکیں ، اور پورے طریق پر دین کی خدمت بجا لا سکیں ، اسلام بھیک مانگنے کے حق میں نہیں ہے ، وہ کہتا ہے جو بھیک مانگتا ہے قیامت کے دن اس کا چہرہ بےرونق ہوگا اور محروم ہوگا ، اس لئے دنیا میں اس نے اپنی عزت کی پرواہ نہیں کی اور شرف انسانیت کی توہین کی ، اس لئے قیامت کے دن بالکل اس کے مساوی اور متبادل سزا دی جائے گی ، اس کا چہرہ بےآب اور زخم خوردہ ہوگا ۔