سورة البقرة - آیت 267

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! (اللہ کی راہ میں) اپنی کمائی میں سے اچھی چیزیں (364) خرچ کرو، اور اس میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا ہے، اور اس میں سے خبیث اور گندی چیزیں خرچ کرنے کا قصد نہ کرو، حالانکہ تم خود (دوسروں سے) وہ چیز بغیر چشم پوشی کے نہ لیتے، اور جان لو کہ اللہ بے نیاز اور صاحب حمد و ثنا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کی راہ میں پاکیزہ چیزیں دو گری پڑی اشیاء کا تصدق کسی طرح موزوں نہیں ۔ اس لئے کہ جب تک اللہ کی راہ میں دینے سے دل تکلیف محسوس نہ کرے نفس اور ضمیر میں ایک جنگ بپانہ ہو ، نفس کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور نہ بخل دور ہو سکتا ہے ، یہ ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ رب السموت والارض ہے جس کے خزانے معمور ہیں ، ہمارے صدقات کا قطعا محتاج نہیں ، وہ تو غنی ہے ، بےنیاز ہے ، اس لئے تقاضا یہ ہے کہ خدا کی راہ میں دے کر ہمیں کیا ملتا ہے ؟ کیا طبعیت کا بخل دور ہوگیا ہے ؟ کیا دل میں خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے آمادگی کا احساس بڑھ گیا ہے یا کیا ؟ پھر فرمایا کہ تم دنیا میں تحائف وصول کرتے ہو تمہیں بھی چیزیں دی جاتی ہیں تمہاری خواہش یہ نہیں ہوتی کہ بہترین چیزیں تمہیں دی جائیں نقص اور نکمی چیز کو تم اپنے لئے ہرگز پسند نہیں کرتے پھر اللہ تعالیٰ کے لئے تم معمولی اور غیر ضروری اشیاء کیوں پسند کرتے ہو ؟ جس چیز کی تمہیں ضرورت نہیں ، اس کی اللہ تعالیٰ کو کیا حاجت ہے ؟