سورة المؤمنون - آیت 28

فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس جب آپ اور آپ کے ساتھی کشتی میں سوار ہوجائیں تو کہیے کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا سن لی : (ف ١) حضرت نوح (علیہ السلام) کے مخاطبین نے جب اس قسم کے اعتراضات کئے کہ آپ بشر ہیں بعد ایسی عجیب باتیں کہتے ہیں جو ہم نے اپنے بڑوں سے نہیں سنیں اور گناہوں کے ارتکاب میں بیباک ہوگئے ، حضرت نوح (علیہ السلام) کو جھٹلانے لگے ، تو آپ نے نصرت الہی کی دعا مانگی ، فرمایا کہ اللہ میں نے ان تک تیرے پیغام کو پورے خلوص اور شوق سے پہنچا دیا ، اور تقریبا ایک ہزار سال تک ان کو دعوت حق دی ، مگر انہوں نے ہمیشہ تکذیب کی ہمیشہ ستایا ، اور دکھ دیا ، اب ان کے گناہوں کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور ادھر بھی مزید صبر اور برداشت کی گنجائش نہیں ، اس لئے انکو عذاب سے دو چار کر ۔ اللہ نے یہ دعا سن لی اور حکم دیا کہ اس قوم کو پانی میں اس طرح غرق کر دو کہ پھر کبھی نہ ابھر سکیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے فرمایا کہ ایک کشتی بناؤ اور جس وقت ہمارے حکم سے تنور (پانی سے بھر کر) جوش مارنے لگے تو تم سب قسم کے حیوانات میں جوڑا جوڑا (یعنی نرومادہ) کشتی میں بٹھا لو ، تاکہ ان کی نسل باقی رہے اور تم ان سے استفادہ کرسکو ، اور اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں بٹھا لو لیکن ظالموں کے حق میں سفارش نہ کرنا وہ ضرور ڈبودیئے جائیں گے ۔ یعنی اللہ کے غصے اور غضب کا تعلق محض گناہوں سے ہے اشخاص مدنظر نہیں ، جو نافرمان اور متمرد ہے اس کے لئے عذاب میں مبتلا ہونا ضروری ہے ، اس بات میں کسی نوع کی تخصیص نہیں ہوگی ارشادہ ہے کہ جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی میں بیٹھ جائیں تو خدا کا شکریہ ادا کریں ، کہ اس نے تمہاری مخلصی کا سامان بہم پہنچا دیا ، اور تمہیں ظالموں سے نجات بخشی ۔ عذاب کے متعلق یہ حقیقت سمجھ لینا چاہئے کہ یہ محض غضب وغصہ کی بنا پر نہیں آیا کرتا ، بلکہ اس کا آنا دیگر اسباب ووجوہ پر موقوف ہے ، اور انسانیت کیلئے خیروبرکت کا موجب ہے جب قومیں مفاسد میں مبتلا ہوجاتی ہیں ، اور قالب انسانی اس حد تک بگڑ جاتا ہے کہ بغیر عمل جراحت اصلاح ممکن نہ ہو تو اس وقت عذاب آتا ہے تاکہ انسانیت کا آپریشن ہوجائے اور جسم مفاسد سے سراپا پاک ، یہ عذاب اور طوفان اس محدود رقبے میں آیا تھا جہاں نوح (علیہ السلام) کی قوم آبا دتھی بقیہ دنیا محفوظ رہی ۔ حل لغات : رسولا : بعض روات کے نزدیک اس سے مراد حضرت ہود (علیہ السلام) ہیں ۔