وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اور تمہارے لیے چوپایو (٦) میں غور کرنے کا مقام ہے، ہم تمہیں ان کے پیٹوں سے دودھ پلاتے ہیں اور ان جانروں میں تمہارے لیے بہت سے فوائد ہیں ان میں سے بعض کا تم گوشت کھاتے ہو۔
حیوانات سے عبرت پذیری ! (ف ١) قرآن حکیم کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ہر نوع کے حالات وکیفیات بیان کرتا ہے اور معمولی باتوں سے حقائق وعبر کے موتی نکال لاتا ہے ، وہ کہتا ہے تمہاری نظریں عمیق اور گہری ہونی چاہئیں تم ہر واقعہ اور ہر چیز پر مبصرانہ غور کرو ، تم کو معلوم ہوجائے گا کہ قدرت کا نظام کس قدر حکیمانہ اور جامع ہے ارشاد ہوتا ہے کہ حیوانات اور جانوروں کو دیکھو ، تم روزانہ دودھ پیتے ہو ، مگر کبھی اس بات پر بھی غور کرنے کی توفیق ہوئی ہے کہ دودھ کس طرح پیدا ہوتا ہے ، وہ چارہ جو گائے اور بھینس کھاتی ہے ایک کیمیاوی عمل میں پہنچتا ہے اور وہاں کئی تبدیلیوں کے بعد دودھ کی شکل میں تھنوں میں آجاتا ہے ، پھر اسی چارہ کا خون بھی بنتا ہے اور جانور کے سارے جسم میں بھی ڈور جاتا ہے اور جو فضلہ رہ جاتا ہے وہ ایک مقرر راستہ سے خارج ہوجاتا ہے ۔ غور فرمائیے ، ایک ہی چیز دودھ بھی ہے اور خون صالح بھی ، طاقت وقوت کا باعث بھی ہے اور فضلہ بھی ، پھر ہم جانوروں کو کئی طرح سے استعمال میں لاتے ہیں ان کا دودھ پیتے ہیں ، گوشت کھاتے ہیں ، سواری کا کام لیتے ہیں اور بہت سے منافع حاصل کرتے ہیں ۔ کشتی پر تم اکثر سوار ہوئے ہو گے لیکن کبھی غور کیا ہے کہ کس قدر قاعدے اور طبعی ضابطے حرکت میں آتے ہیں تب جا کر کہیں پانی کے سینہ پر کشتی قدم رکھتی ہے غرض یہ ہے کہ تم ان مہربانیوں اور عنایتوں پر غور کرو اور سوچو کہ کیا یہ عنایات بےمعنی ہیں ، اور کوئی مقصد ان کے پس پردہ کار فرما نہیں ؟ کیا کائنات کا سارا نظام بلاوجہ حرکت میں ہے یا اس کار گاہ تگ ودو میں کوئی منزل بھی ہے ، اور اس کا کوئی مقصد بھی ہے ، جس کا حاصل کرنا انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے ۔