سورة الحج - آیت 73

يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے لوگو ! ایک مثال (٣٧) بیان کی جاتی ہے جسے غور سے سنو، اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے ہیں، چاہے اس کے لیے سبھی اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے، تو اس سے وہ چیز چھڑا نہیں سکتے ہیں، چاہنے والا اور جسے چاہا جارہا ہے دونوں کمزور ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) اس سے قبل کی آیت میں شرک کی مذمت فرمائی تھی اور یہ بتایا تھا کہ ان مشرکوں کے پاس اس کی تائید کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ، اب اس عقیدے کی بےمائگی کا اظہار فرمایا ہے ، ارشاد ہے کہ انکے تمام معبود جمع ہوجائیں ، اور اپنی پوری قوت صرف کردیں ، جب بھی ایک مکھی تک پیدا کرنے میں قاصر رہیں گے ، حالانکہ مکھی ایک نہایت ہی ادنی درجہ کی مخلوق ہے ، اور مکھی کا پیدا کرنا تو بڑی بات ہے اگر وہ انکے کھانے میں سے کچھ چھین لے جائے تو یہ اس کو چھڑا بھی نہیں سکتے ۔ جب مطلوب و معبود کی یہ کیفیت ہے کہ ادنی درجے کی مخلوق کے پیدا کرنے پر بھی وہ قادر نہیں ، اور ماننے والوں کی یہ حالت ہے کہ مکھی پر بھی اختیار نہیں ، تو پھر بت پرستی کیسی ؟ کیا اس بےچارگی اور عجز کے بعد بھی کسی شئے کو خدا مان لینا جائز اور درست ہو سکتا ہے ۔ ؟ حقیقت یہ ہے کہ شرک وبت پرستی میں کوئی معقولیت نہیں صرف وہ لوگ اس معصیت کے مرتکب ہوتے ہیں ، جو ذہنا نہایت پست اور ذلیل ہیں ، اور جنہیں مبدا فیاض سے عقل قطعا ارزانی نہیں ہوئی ۔