وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ ۖ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۗ قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكُمُ ۗ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی آیتوں کی تلاوت (٣٦) کی جاتی ہے تو آپ کافروں کے چہروں پر ناپسندیدگی کے آثار پہچان لیتے ہیں قریب ہوتا ہے کہ وہ ان پر چڑھ کر بیٹھیں گے جو ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کیا میں تمہیں ان آیتوں سے بھی زیادہ تکلیف دینے والی چیز کی خبر دوں وہ ہے جہنم کی آگ، جس کا اللہ نے کافروں سے وعدہ کر رکھا ہے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہوگا۔
(ف ٢) ارشاد ہے کہ گو قرآن ہمہ خیر وبرکت ہے اور اس کے دلائل واضح اور روشن ہیں مگر منکرین کے دلوں میں اس کے خلاف بغض وعناد ہے کہ وہ شائستگی کے ساتھ اس کو سن بھی نہیں سکتے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ان تمام بدبختوں کو قرآن سناتے اور چاہتے کہ ان کو محرومی اور بدنصیبی کی دنیا سے نکال کر سعادت وفلاح کی دنیا میں پہنچا دیا جائے ، تویہ شقیان ازلی نہایت تنفص اور تنفر کا اظہار کرتے ہیں گویا قرآن بہت تلخ جرعون کا نام ہے جو ان کے حلق میں نہیں اڑتے ۔ فرمایا تم قرآن حکیم کی آیتوں کو ناگوار سمجھ کر نہیں ، سنتے ہو مگر میں تمہیں بتاؤں ایک اس سے بھی کہیں ناگوار چیز تمہیں برداشت کرنا پڑے گی اور وہ آگ ہے ، جہنم کی آگ ، کیا اس آگ کو برداشت کرلو گے ؟ اے کاش سمجھو اور غور کرو ۔ حل لغات : سلطانا : فیصلہ کرنے اور چھا جانے والی دلیل ۔ المنکر : ناپسندیدگی ۔