وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر قتل کردیئے گئے یا مرگئے، انہیں اللہ یقینا اچھی روزی عطا کرے گا، اور بیشک اللہ ہی سب سے اچھا روزی رساں ہے۔
مسلمان کیوں ہجرت کرتا ہے : (ف ١) اسلامی نقطہ نگاہ سے دین کی حفاظت ہر چیز پر مقدم ہے اور مسلمان مجبور ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے کلچر اپنی تہذیب اور اپنی روایات کو برقرار رکھے ، اس کے نزدیک ملک قوم اور وطنی کشش وجاذبیت کا مفہوم کچھ حیثیت نہیں رکھتا مسلمان کی جان اس کا مال اور اس کا سب کچھ مذہب ہے ، وہ افلاس کو برداشت کرسکتا ہے وہ بھوکا رہ سکتا ہے اور دنیا کی ہر مصیبت کیلئے تیار وآمادہ ہو سکتا ہے مگر دین اور روح کے ادنی وداعی سے ایک لمحہ کے لئے بھی وہ جدا نہیں ہو سکتا ، جو لوگ مسلمان کی نفسیات دینی سے واقف نہیں ، وہ ان کے جذبات وحسیات کو نہیں سمجھ سکتے ان کے نزدیک مذہب کیلئے وطن چھوڑ دینا ، مال ودولت سے الگ ہوجانا ناقابل فہم ہے ، اگر مسلمان کے لینے یہ بالکل آسان ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اصل دنیا خیالات وافکار کی صحت وعمدگی ہے ، اور یہ ہر وقت اس کی جان کے ساتھ ہے وہ مگر ایمان کی نعمتوں سے بہرہ ور ہے اور اس کا دل ودماغ مطمئن اور قانع ہے تو پھر ملک اور وطن کی دل بستگیاں اسے ہجرت سے نہیں روک سکتیں ۔ اس آیت میں مہاجرین کے فضائل بیان فرمائے ہیں کہ اگر انہوں نے میری اہ میں اپنا وطن اور کاروبار چھوڑ دیا اور دشمنوں سے جہاد کیا بایوں طبعی موت مر گئے تو میں انہیں بہترین نعمتوں سے نوازوں گا ، مجھ سے بڑھ کر اور کون دینے والا اور بخشنے والا ہو سکتا ہے ۔ آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ مجاہد کی موت پر ہر آئنہ شہادت ہے وہ چونکہ اپنی ذات کو اللہ کی محبت میں اللہ کے سپرد کردیتا ہے اس لئے خواہ میدان جہاد میں لڑتا ہوا مرے خواہ جہاد کی آرزو میں اپنی موت مر جائے ، اس کا اجر متعین ہے ، اور وہ ہر صورت میں شہید کے برابر ہے حدیث میں آیا ہے المقتول فی سبیل اللہ والمتوفی فی سبیل اللہ بغیر قتل ھما فی الخیر والاجر شریکان “۔ یعنی اللہ کی راہ میں مرنے والا اور لڑ کر شہید ہونے والا دونوں خیر وبرکت میں برابر کے شریک ہیں ۔ حل لغات : عاقب : معاقبہ ۔ انتقام لینا ، یولج : داخل کرتا ہے ، الباطل : غلط ، ناجائز ناچیز ۔