وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی بھی رسول اور نبی بھیجا (٢٩) اور اس نے خواہش کی کہ لوگ اس کی دعوت کو قبول کرلیں تو شیطان نے اس کی خواہش میں رکاوٹ پیدا کی، تو اللہ نے شیطان کی رکاوٹ کو زائل کردیا، اور اللہ نے اپنے رسول کی دعوت کے پاؤں جما دیئے، اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑی حکمتوں والا ہے۔
غرانیق کا قصہ جعلی ہے !: (ف ١) ان آیات کے شان نزول میں مفسرین نے یہ قصہ ذکر کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب دیکھا کہ قوم کی سرکشی اور عناد روز بروز بڑھتا جاتا ہے اور کسی طرح ان کے جوش تمرد میں کمی واقع نہیں ہوئی تو ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کسی طرح ان کی تالیف قلوب کیجائے ، چنانچہ ایک دن آپ قریش کے مجمع میں پہنچے ، تاکہ انکے خیالات کو اسلام کی جانب پھیر سکیں اسی اثنا میں آپ پر سورۃ النجم کی آیات نازل ہوئیں ۔ آپ نے ان کو مجمع میں پڑھ کر سنایا ، اور جب اس آیت پر پہنچے ۔ (آیت) ” افرایتم اللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری “۔ تو شیطان کی تحریک سے آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے ، ” تلک الغرانیق العلی منھا الشفاعۃ ترنجی “۔ یعنی یہ بت واقعی بڑے عظمت والے ہیں ، اور ان کی شفاعت منظور کی جائے گی ، اس لئے ان پر بھروسہ کرنا چاہئے ، ان الفاظ سے تمام مشرکین خوش ہوگئے ، کہ آج محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ہمارے بتوں کی تعریف کی ہے ، چنانچہ مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدے میں گر گئے ، جب اس قصہ کا چرچا ہوا ، تو جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا غضب ڈھایا مشرکوں کی ہمنوائی آپ کو زیبا نہ تھی ، اس پر آپ مغموم ہوئے اور آپ کی تسلی کیلئے یہ آیتیں نازل ہوئیں ، مگر یہ قصہ بالکل غلط اور بیہودہ ہے ۔ ذیل کے نکات پر غور کیجئے : ١۔ سورۃ النجم کا سیاق اس غلط فہمی کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہنے دیتا کیونکہ اس کے بعد ہی ان کے بتوں کی زبردست مذمت مذکور ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک بےجوڑ جملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر جاری ہوجائے جو ان آیات کے مخالف ہو ، اس بات کو نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محسوس کیا اور نہ مسلمانوں ہی کو توجہ ہوئی ۔ ٢۔ جب تمام مکی سورتوں میں توحید کو واضح کرکے بیان کردیا گیا تھا ، تو پھر اب یہ کیونکر قابل تسلیم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا مسلک بدل دیا اور آپ کو محسوس نہ ہوا ۔ ٣۔ تبدیلی مسلک اور غلط باتوں کے پیش کرنے پر قرآن میں سخت وعید آئی ہے ۔ (آیت) ” ولو تقول علینا بعض الاقاویل “۔ الخ ۔ ٤۔ یہ نص موجود ہے کہ آپ محض وحی کے تابع تھے اور اپنی طرف سے کچھ کہہ دینے کے مجاز نہ تھے (آیت) ”۔ وما ینطق عن الھوی “۔ ٥۔ آپ کا دل ودماغ اور زبان سب چیزیں اسی طرح حفاظت الہیہ میں تھیں کہ شیطان کی دخل اندازی ناممکن التصور ہے ۔ (آیت) ” ولو لا ان ثبتناک “۔ الخ ، ” سنقرنک فلا تنسے “۔ ٦۔ ابن خزعہ نے کہا ہے کہ یہ قصہ زنادقہ کا وضع کردہ ہے چنانچہ انہوں نے اس پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے ، امام ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی فرماتے ہیں کہ یہ قصہ بالکل ثابت نہیں ۔ ٧۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ النجم کی تلاوت اور مشرکین کے سجدہ کو ذکر کیا ہے لیکن اس قصہ کو کہیں ذکر نہیں فرمایا ۔ ٨۔ اگر یہ قصہ تسلیم کر لیاجائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ رسول کا ہر پیغام اصلی حالت میں لوگوں تک پہنچنا یقینی نہیں ہے ۔ ظاہر ہے ، کہ یہ بہت بڑا الحاد اور اتہام ہے ۔ بات یہ ہے کہ یہ ساری غلط فہمی لفظی تمنی کے مفہوم نہ سمجھنے سے پیدا ہوئی ۔ تمنی کے معنی خواہش اور آرزو کے ہیں ، اور پڑھنے اور تلاوت کرنے کے بھی ہیں چنانچہ حضرت حسان (رض) کا ایک شعر حضرت عثمان (رض) کے متعلق ہے ۔ تمنی کتاب اللہ اول لیلۃ واخرھا لاتی حمام المقادر : یعنی عثمان (رض) رات کے پہلے حصے میں قرآن کی تلاوت کرتے رہے اور آخری حصے میں شہید ہوگئے ۔ اس آیت میں تمنی کے معنی پڑھنے اور تلاوت کرنے کے ہیں جن لوگوں نے اس کے معنے آرزو اور خواہش کے لئے ہیں ، ان کیلئے اس مصنوعی قصہ کے تسلیم کرلینے میں آسانیاں پیدا ہوگئیں ، اور میرا تو خیال ہے کہ یہ قصہ ہی لفظ تمنی پڑھ کر وضع کیا گیا ہے ، اور واضع کا ذہن اسی لفظ سے اس قصہ کی جانب منتقل ہوا ہے ۔ آیت کا مقصد واضح ہے کہ انبیاء جب لوگوں کے سامنے احکام پیش کرتے ہیں تو شریر لوگ اپنی طرف سے بہت کچھ بڑھا چڑھا کر اسے پھیلاتے ہیں ، اور لوگوں کے دلوں میں قسم قسم کے شبہات پیدا کردیتے ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ جوابات قاطعہ اور براہین سامعہ سے ان شبہات کو دور کردیتا ہے پھر غلط فہمی کیلئے کوئی احتمال باقی نہیں رہتا ، البتہ ان کے دلوں کی آزمائش ہوجاتی ہے ۔ حل لغات : مرض : کھوٹ ، فتخبت ۔ احبات کے معنے عاجزی سے جھکنے کے ہیں ۔