الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
جو لوگ اپنے گھروں سے ناحق اس لیے نکال (٢٥) دیئے گئے کہ انہوں نے کہا، ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ ہٹاتا نہ رہتا تو عیسائی راہبوں کی خانقاہیں، گرجے، یہودیوں کی عبادت گاہیں اور وہ مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کو یاد کیا جاتا ہے، سب کے سب منہدم کردیئے جاتے، اور اللہ یقینا ان کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں، بیشک اللہ بڑی قوت والا بڑا ہی زبردست ہے۔
اسلامی جہاد کی غرض قیام عبادت ہے : (ف ٢) اس آیت میں بڑے واضح الفاظ میں قرآن حکیم نے بتا دیا ہے کہ اسلامی جہاد سے غرض معاہد الہیہ کی حفاظت ہے مسلمان بس لئے میدان جہاد میں قوت آزما ہوتا ہے کہ خدا پرستی کے تمام مرکزوں کو مشرکین کے قبضہ واستیلاء سے پاک کر دے ، وہ جہاد وقتال سے مادی نفع کا طالب نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے سامنے اعلاء کلمۃ اللہ کا بلند مقصد ہوتا ہے ، وہ اللہ کے لئے لڑتا ہے اور اللہ کے لئے صلح کرتا ہے اگر مسلمان حق وصداقت کی تائید میں تلوار نہ اٹھائے تو پھر ساری دنیا میں باطل کی حکومت ہوجائے ۔ اور تمام مرکزوں میں جہاں اللہ کا نام لیا جاتا ہے ، دیوتاؤں اور معبودان باطل کی عبادت ہونے لگے ، مسلمان امن عالم کا کفیل ہے ، اس کا جہاد دوسرے مذاہب کی آزادی کے لئے بھی ہے ، وہ چاہتا ہے کہ سب عبادت گاہوں کی حفاظت ہو ، اور سب لوگوں کو آزادی حاصل ہو کہ وہ آزادانہ طور پر اللہ تعالیٰ کو یاد کرسکیں ، اور اس کے نام کو بلند کرسکیں ، البتہ اسے یہ ناپسند ہے کہ لوگ غیر اللہ کی پرستش کریں ، اور بتوں اور دیوتاؤں کے نام پر معابد تعمیر کریں ، کیونکہ ایسے مرکز عبادت درحقیقت جہالت وتاریک خیالی کے مدرسے ہوتے ہیں ، یہاں انسانوں کو ذلت و نکبت کا درس دیا جاتا ہے ، اور یہ بتایا جاتا ہے کہ خدا کے سوا اور ہستیاں بھی احترام وعبادت کے لائق ہیں ، حالانکہ یہ بہت بڑی گمراہی اور بہت بڑا جرم ہے ، اس سے نفس انسانیت تباہ اور برباد ہوجاتی ہے اور پھر کبھی ابھرنے کی امید نہیں کی جا سکتی ۔ حل لغات : صوامع : صومعہ کی جمع ہے ، نصارے اور آتش پرستوں کے عبادت خانے ۔