إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
بیشک جن لوگوں نے کفر کی راہ (١٤) اختیار کی، اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے بنایا ہے جس میں سکونت پذیر اور باہر سے آنے والا دونوں برابر ہیں، اور جو کوئی اس میں اللہ کے حدود کو تجاوز کرتے ہوئے شرک و بدعت کی راہ اختیار کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
بیت اللہ کی حرمت : (ف ١) کفار اور مسلمانوں کے درمیان فیصلہ صادر فرمانے کے بعد اب بیت اللہ کی عزت وحرمت کا بیان ہے ، بتایا ہے کہ یہ لوگ کس درجہ محروم اور قسی القارب ہیں ، کہ مسلمانوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ، اور بیت اللہ تک جانے نہیں دیتے ، تاکہ مسلمان آزادانہ اپنے مناسک ادا کرسکیں ، بات یہ تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سال حدیبیہ میں مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے ، تاکہ وہاں پہنچ کر کھلے بندوں اپنی عقیدت ونیاز مندی کا اظہار کریں ، مگر مکے والوں نے حدیبیہ کے مقام میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روک لیا ، اور آگے نہ بڑھنے دیا ۔ قرآن حکیم نے ان کے اس فعل کی مذمت فرمائی ہے اور کہا ہے کہ بیت اللہ میں سب کے حقوق برابر ہیں ، اس میں یہاں رہنے والوں کی کوئی تخصیص نہیں ۔