هَٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ
یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے دشمن (١٢) ہیں، انہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا، پس جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان کے لئے قیامت کے دن آگ کے کپڑے بنائے جائیں گے ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا ہوا گرم پانی انڈیلا جائے گا۔
دو مخالف گروہ : (ف2) ﴿هَذَانِ خَصْمَانِ﴾ سے مراد دو گروہ ہیں ، ایک اہل معصیت دوسرا اہل خیر ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، نتیجے اور ثمرے کے لحاظ سے یہ دونوں گروہ برابر نہیں ، پہلا گروہ اپنے اعمال بد کی وجہ سے جہنم میں جائے گا ، اور سخت ترین اذیتیں اٹھائے گا ، دوسرا گروہ جنت کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوگا ، اور اللہ کا شکر گزار ہوگا ۔ ﴿قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ﴾سے مراد یہ ہے کہ جہنم کی آگ ان کے چاروں طرف احاطہ کرے گی ، گویا انہیں آگ کے پیراہن پہنائے گی ، یہ ایک تشبیہ ہے ، جس طرح دوسری جگہ فرمایا ہے ﴿لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ﴾حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اس آگ کی ایک چنگاری بھی دنیا کے پہاڑوں پر گرے تو ان کو جلا ڈالے ۔ غرض یہ ہے کہ عذاب شدید مکمل طور پر ہوگا ۔ مجرمین کی کڑی نگرانی کی جائے گی ، فرشتے لوہے کے ہتھوڑوں سے ان کی خبر لیں گے ، اور جب یہ مجرمین اس آتشکدہ غم وحسرت سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو پھر ناکامی ونامرادی کے ساتھ لوٹا دیئے جائیں گے ، جہنم کی یہ کیفیات دل میں سخت خوف اور ہول پیدا کردیتی ہیں ، اور یہ اسی لئے بیان کی گئی ہیں ، کہ منکرین کی قساوت قلبی دور ہو اور وہ عذاب الہی کے نام سے کانپ اٹھیں ، اس دنیا میں یہ معلوم کرنا ، کہ ان کیفیات کی تفصیل کیا ہے ، ناممکن ہے ، قرآن حکیم نے تو سزا کا صرف وہ پہلو ذکر کیا ہے ، جو مجرموں اور گناہ گاروں کے لئے عبرت اور موعظت کا باعث ہو سکے اور بس اس کے بعد اہل جنت کا ذکر ہے ، کہ یہ لوگ عزت وآرام سے رہیں گے اور تمام لذائذ ، اور ان تکلفات سے دو چار ہوں گے ، جنہیں یہ دین کے لئے دنیا میں چھوڑ چکے تھے ۔ فرمایا ، ان لوگوں نے چونکہ دنیا کی زندگی میں قول طیب کو مان لیا تھا ، اور صراط حمید کی پیروی اختیار کی تھی ، اسی لئے آج نعمتوں اور لذتوں سے نوازے جارہے ہیں ۔ حل لغات : خَصْمَانِ: دو مخالف ، الْحَمِيمُ: کھولتا ہوا پانی ۔