يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ
وہ اللہ کے سوا اسے پکارتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچتا ہے اور نہ نفع، یہی انتہائی درجہ کی گمراہی ہے۔
(ف ١) مشرکین کا ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جنہیں کچھ تو اللہ سے تعلق ہوتا ہے اور کچھ اپنے بتوں اور دیوتاؤں سے ، کبھی وہ خانقاہ ہیں سر بسجود نظر آتے ہیں ، اور کبھی صحن مسجد میں کبھی خدا کے سامنے جھکتے ہیں ، کبھی اپنے دیوتاؤں کی شرن میں ، انہیں اگر خدا کی عبادت پر آمادہ بھی کیا جائے ، تو وہ صرف آزمائش وامتحان کی حد تک قائم رہتے ہیں ، یعنی جب تک ان کی سنی گئی اور کام ہوتے رہے ، خدا کو مانتے رہے اور اس کا شکریہ ادا کرتے رہے ، اور جہاں اللہ تعالیٰ نے ذرا امتحان میں ڈال دیا ، جھٹ سے الگ ہوگئے کہ خدا ہماری نہیں سنتا یہ بدبخت نہیں جانتے کہ خدا آزمائشوں اور تجربوں سے بالا ہے ، وہ اگر ہماری آرزوؤں کو سن لیتا ہے اور قبول کرلیتا ہے تو اس کی مہربانی اور نوازش ہے ، اور اگر نہیں قبول کرتا ، تو یہ بےنیازی وسروری ہے شکایت اور گلہ کا کیا موقع ہے ۔ بھلا غور تو فرمائیے کہ جب تک ہم اس پر کامل یقین اور کامل بھروسہ نہیں رکھتے ، کیونکر اس کے یہاں معتمد اور قابل لحاظ قرار پا سکتے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی ذہنی پستی کا یہ عالم ہے کہ پکارتے بھی ہیں تو ان چیزوں کو جن کو معبودیت کا درجہ کسی طرح حاصل نہیں اور ان کے نفع ونقصان میں ہرگز کچھ اثر ودخل نہیں رکھتیں ، بلکہ ان کی عبادت کا جو اثر بالواسطہ ہوتا ہے ، وہ سخت مضر ہوتا ہے ، طبیعت مسخ ہوجاتی ہے ، اور دلوں میں توحید کی روشنی پیدا نہیں ہوتی ، خود داری اور خود شناسی کے جوہر مٹ جاتے ہیں ، اور انسان قلب ودماغ کے لحاظ سے بہت حقیر اور ذلیل ہوجاتا ہے ۔