يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے ایمان والو ! ہم نے تمہیں جو روزی دی ہے، اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو (347) وہ دن آنے سے پہلے جب نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی، اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی، اور نہ کوئی سفارش، اور کفر کرنے والے (اپنے اوپر ہی) ظلم کرنے والے ہیں
(ف ١) انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب قرآن حکیم کی متعدد آیات میں مزکور ہے جس کے دو معنی ہیں ، ایک تو یہ کہ مسلمان دنیا میں دولت وسرمایہ کے لحاظ سے مستعفی ہو ، اس کی حیثیت دینے والے کی نہ ہو ۔ العید العلیا خیر من ید التغلی ۔ دوسرے یہ کہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ ہو سکے ۔ وہ لوگ جو قومی طور پر فیاض نہیں ہوتے اور قومی ضروریات کو محسوس نہیں کرتے قطعی طور پر زندہ رہنے کی اہلیت اور استعداد نہیں رکھتے ، قیامت کے دن پورا پورا محاسبہ ہوگا نہ تو سرمایہ کام آسکے گا اور نہ کوئی دوستی ہی ، اور وہ لوگ جنہوں نے یہاں بخل وکفر سے کام لیا ہے ‘ وہاں بھی کسی بخشش اور رحمت کے متوقع نہ رہیں ، اس لئے کہ انہوں نے شرک وانکار کی وجہ سے اپنے آپ کو بالکل محروم کر رکھا ہے ۔ ” شفاعت “ کی قرآن حکیم نے عام طور پر نفی کی ہے اور مستقلا سارے قرآن مجید میں ایک جگہ بھی ” شفاعت “ کے مسئلہ کی تائید نہیں ملتی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی جس سفارش اور شفاعت کے قائل تھے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہودیت اور عیسائیت کے اقرار کرلینے کے بعد ہر معصیت اور ہر گناہ جائز ہے ، قرآن مجید اس نوع کی شفاعت کی کلیۃ نفی کرتا ہے ، البتہ اللہ کے نیک بندوں کو اذان دیا جا سکتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی سفارش کرسکیں گے ۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پابند صوم وصلوۃ مسلمانوں کی سفارش کریں گے جن سے بتقاضائے بشریت گناہ سرزد ہوگئے ہوں ۔