سورة الأنبياء - آیت 105

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد تمام آسمانی کتابوں میں لکھ (٣٨) دیا ہے کہ سرزمین کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

زمین کے وارث کون ہیں ؟ : (ف ١) غرض یہ ہے کہ صالحین کے لئے کامیابی و کامرانی قطعی ویقینی ہے پہلی آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں مذکور ہے کہ صلحاء زمین کے وارث ہوں گے ، اور تمام مادی وروحانی سربلندیاں ان کو عطا کی جائیں گی ، مگر صلحاء سے کون لوگ مراد ہیں ؟ کیا وہ لوگ جو امور حکمرانی سے محض ناواقف ہیں ، اور صرف سجادوتسبیح کو ، ” صلاح وتقوی “ کا معیار گردانتے ہیں ، یا وہ لوگ جو ان شروط دین کے ساتھ اس کردار کے بھی حامل ہیں ، جو زندہ قوموں کا کردار ہے اور ان تمام اوصاف سے متصف ہیں جن کا ہونا حکمران قوم کے لئے ضروری ہے قرآن کہتا ہے کہ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں کے لئے الگ الگ قواعد بتا دیئے ہیں ، چنانچہ اخلاق کے لئے جدا ضابطے ہیں ، اور معاشرت کے لئے علیحدہ دستور ہیں ، جن پر گل پیرا ہو کر انسان اخلاق ومعاشرت کی تمام برکتوں کو حاصل کرسکتا ہے ، اسی طرح سیاسی زندگی اور سیاسی برتری کے لئے بھی تفصیلات بیان کی ہیں اب جو قوت بھی ان تفصیلات کو عملا تسلیم کرتی ہے وہ اسی حد تک ان برکات سے ضرور استفادہ کرے گی ، اور دنیا میں سربلند ہو کر رہے گی ، کیونکہ یہ علو و برتری اسلامی پروگرام پر فی الجملہ عمل کا نتیجہ ہے ۔