سورة الأنبياء - آیت 78

وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور داؤد و سلیمان (٢٦) جب کھیتی کے معاملے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں گھس گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلے کے گواہ تھے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

اللہ کی اپنے بندوں پر بو قلمون رحمتیں : (ف1) ان سب آیات میں اللہ تعالیٰ کی بوقلمون نعمتوں کا ذکر ہے کہ کس طرح کسی کسی بندے کو نوازا گیا ، داؤد وسلیمان (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد ہے ، کہ دونوں کو ہم نے پیغمبرانہ فراست عطا کر رکھی تھی ، مگر وقت نظر میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اجتہاد بڑھ گیا ، قصہ یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس دو فریق آئے ایک کا باغ تھا ، اور دوسرے کی بکریاں باغ والے نے کہا ، رات کو اس کی بکریوں نے میرے باغ کا ستیاناس کردیا ہے ، اس سے ہر جانہ دلوائیے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا ، تم اس کی بکریاں چھین لو ، یہ اس غفلت وبے پرواہی کی سزا ہے جس کی وجہ سے تمہارا باغ غارت ہوگیا ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) تک یہ معاملہ پہنچا تو انہوں نے فرمایا میرا فیصلہ اس سے مختلف ہے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے پوچھا ، وہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ بکریوں سے اس وقت تک استفادہ کیا جائے جب تک کہ نقصان کی تلافی نہ ہو ، اور اس کے بعد بکریاں واپس کردی جائیں ، کیونکہ بکریوں کا بطور تملیک مدعی کے سپرد کردینا ، قرین عدل نہیں ، حضرت داؤد (علیہ السلام) بیٹے کی فراست پر خوش ہوئے اور اس تجویز سے اتفاق کیا ؟ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امر مجتہد فیہ میں اختلاف جائز ہے بلکہ بعض حالات میں ضروی ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دانشمندی اور دور فہمی کے بیشمار قصے کتابوں میں مذکور ہیں اور انکی حکیمانہ امثال تو مشہور ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا جس سے وہ ممتاز ومفتخر تھے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) بھی اللہ کے بےشمار انعامات سے سرفراز تھے ، ان کو سامان حرب کی تیاری میں کمال حاصل تھا ، زرہیں ، یعنی آہنی قمیص سب سے پہلے انہوں نے ایجاد کیں ، پہاڑوں میں راستے انہوں نے بنائے اور پرندوں کو جنگی خدمات کے لئے استعمال کیا ، حل لغات : الْحَرْثِ: کھیت اور باغ دونوں کے لئے اس کا استعمال قرآن میں ہوا ہے ۔ نَفَشَتْ: نفش سے ہے ، رات کے وقت مال ڈھور کا کھیت میں جا پڑنا ۔