وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ
اور قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کی ترازوئیں قائم کریں گے، پس کسی آدمی پر کچھ بھی ظلم نہیں ہوگا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابربھی کوئی عمل ہوگا تو اسے ہم سامنے لائیں گے اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔
وزن اعمال : (ف ٢) وزن اعمال کی تفصیلی کیفیت کو معلوم کرنا انسانی استعداد سے دور ہے کیونکہ اس کا تعلق ایک ایسے عالم سے ہے جو اس وقت تک نادیدہ ہے ، البتہ یہ درست ہے کہ اعمال کے حسن وقبح کو جانچنے کے لئے ، اور ان میں مدارج قائم رکھنے کے لئے ایک معیار کی ضرورت ہے بس یہی معیار ترازوئے عدل ہے ، مقصد بہرحال یہ ہے کہ جہاں تک اعمال کا تعلق ہے ، اللہ کی عدالت میں کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا ، اور ہر شخص کو وہی ثمرہ یا بدلہ ملے گا جس کا وہ ٹھیک طور پر حقدار ہے ۔ حل لغات : نفحۃ : تھوڑا سا حصہ ۔ مثقال : نام وزن ، مقدار ۔