بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ
بلکہ (ابات یہ ہے کہ) ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو دنیاوی مال و متاع (١٨) سے بہرہ مند کیا، یہاں تک کہ انہوں نے اسی حال میں ایک لمبی عمر گزار لی (تو اپنی حقیقت بھول گئے) کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہم ان کی سرزمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے جارہے ہیں کیا پھر بھی وہی غالب ہوں گے۔
(ف ١) مخالفین اسلام کو اپنی معاندانہ کوششوں پر بڑا ناز تھا ، ان کا خیال تھا کہ ان کی ناپاک مساعی سے اسلام کی بڑھتی ہوئی برکات رک جائیں گی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یہ محض وہم باطل ہے انہیں دیکھنا چاہئے ، کہ فتوحات اسلامی کی وسعتیں کہاں تک پھیلتی چلی جا رہی ہیں ، کیا اسی مغلوبیت کا نام قبضہ وغلبہ ہے ؟ یہ تاریخ کا چمکتا ہوا واقع ہے ، کہ اسلام جس ہمہ گیری اور غیر محدود طور پر پھیلا دنیا کا کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، تاریخ عاجز ہے کہ مسلمان مجاہدین کی مثال پیش کرسکے ۔ پھر کیا باطل اس طرح کامیاب ہو سکتا ہے ؟ کیا جھوٹ کو اتنا فروغ حاصل ہوتا ہے کہ لوگ جوق در جوق اس کو قبول کریں ، اور خاص وعام طبائع اس قدر متاثر ہوں ؟ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہرچند ان لوگوں کو حقیقت کی طرف بلایا ۔ مگر یہ قوت سماعت سے محروم ہوچکے ہیں ، اس لئے مطلقا کان نہیں دھرتے ، اور نہیں سنتے کہ سب کچھ ان کے بھلے کے لئے کہا جارہا ہے ۔