وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ
اور اسی نے رات اور دن اور آفتاب اور ماہتاب کو پیدا کیا ہے، ہر ایک اپنے دائرہ میں تیر رہا ہے۔
جمال قدرت کا مشاہدہ کرو : (ف ١) تذکیر بآلاء اللہ بھی قرآن حکیم کا ایک خاص طرز بیان ہے کیونکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جنہیں خشک دلائل سے زیادہ کائنات کا جمال اپنی طرف کھینچتا ہے ، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دعوت نظر دیتے ہیں ، اور فرماتے ہیں کہ تم اگر واقعی قدرت کے جمال وکمال کو دیکھنا چاہتے ہو تو صرف مادیت کی تسکین کے لئے نہ دیکھو ، بلکہ دیدئہ عبرت سے ملاحظہ کرو ، تمہیں معلوم ہوگا کہ کس صنعت وحکمت سے اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو پیدا کیا ہے زمین وآسمان کی تخلیق پر غور کرو ، پانی کے حیات بخش اثرات دیکھو ، پہاڑوں کے فوائد سمجھو ، آسمان ، دن ، رات اور چاند سورج کو دیکھو کہ کیونکر ہر چیز اللہ کی وسعت عملی کا پتہ دے رہی ہے ۔ (آیت) ” کل فی فلک یسبحون “۔ سے مراد محض یہ ہے کہ آفتاب وقمر بھی اپنے فرائض تکوین کو ادا کر رہے ہیں ، یہ مراد نہیں کہ وہ آسمان میں محض گھوم ہی رہے ہیں ، اور مچھلیوں کی طرح تیر رہے ہیں یہ محض ایک لسانی عرف ہے ، جس کو قرآن حکیم نے ادا کیا ہے جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ سورج غروب ہوگیا ، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ، مقصود یہ ہوتا ہے کہ دن کی روشنی ختم ہوچکی ، اور رات کی تاریکی شروع ہونے والی ہے قرآن حکیم چونکہ خالص عربی زبان میں نازل ہوا ہے ، اور وہ بےنظیر ادبی کمالات کا حامل ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ عربی محاورات کو ملحوظ رکھے ، بلکہ عربیت کا بہترین نمونہ ہو ، اور معانی ومفاہیم کے لئے عربی انداز بیان ہی اختیار کرے ، تاکہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ قرآن میں عجمی پیرایہ اختیار کیا گیا ہے ۔