سورة الأنبياء - آیت 33

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اسی نے رات اور دن اور آفتاب اور ماہتاب کو پیدا کیا ہے، ہر ایک اپنے دائرہ میں تیر رہا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جمال قدرت کا مشاہدہ کرو : (ف ١) تذکیر بآلاء اللہ بھی قرآن حکیم کا ایک خاص طرز بیان ہے کیونکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جنہیں خشک دلائل سے زیادہ کائنات کا جمال اپنی طرف کھینچتا ہے ، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دعوت نظر دیتے ہیں ، اور فرماتے ہیں کہ تم اگر واقعی قدرت کے جمال وکمال کو دیکھنا چاہتے ہو تو صرف مادیت کی تسکین کے لئے نہ دیکھو ، بلکہ دیدئہ عبرت سے ملاحظہ کرو ، تمہیں معلوم ہوگا کہ کس صنعت وحکمت سے اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو پیدا کیا ہے زمین وآسمان کی تخلیق پر غور کرو ، پانی کے حیات بخش اثرات دیکھو ، پہاڑوں کے فوائد سمجھو ، آسمان ، دن ، رات اور چاند سورج کو دیکھو کہ کیونکر ہر چیز اللہ کی وسعت عملی کا پتہ دے رہی ہے ۔ (آیت) ” کل فی فلک یسبحون “۔ سے مراد محض یہ ہے کہ آفتاب وقمر بھی اپنے فرائض تکوین کو ادا کر رہے ہیں ، یہ مراد نہیں کہ وہ آسمان میں محض گھوم ہی رہے ہیں ، اور مچھلیوں کی طرح تیر رہے ہیں یہ محض ایک لسانی عرف ہے ، جس کو قرآن حکیم نے ادا کیا ہے جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ سورج غروب ہوگیا ، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ، مقصود یہ ہوتا ہے کہ دن کی روشنی ختم ہوچکی ، اور رات کی تاریکی شروع ہونے والی ہے قرآن حکیم چونکہ خالص عربی زبان میں نازل ہوا ہے ، اور وہ بےنظیر ادبی کمالات کا حامل ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ عربی محاورات کو ملحوظ رکھے ، بلکہ عربیت کا بہترین نمونہ ہو ، اور معانی ومفاہیم کے لئے عربی انداز بیان ہی اختیار کرے ، تاکہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ قرآن میں عجمی پیرایہ اختیار کیا گیا ہے ۔