سورة الأنبياء - آیت 18

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بلکہ ہم تو حق کو باطل پر دے مارتے ہیں پس وہ اس کی سرکوبی کردیتا ہے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے باطل کا وجود ختم ہوجاتا ہے، اور جو کچھ تم اللہ کے بارے میں کہا کرتے ہو وہ تمہاری تباہی لاکر رہے گی۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کائنات کا ایک مقصد ہے : (ف ١) اسلام نکتہ نگاہ سے یہ دنیا اور اس کی تمام آرائشیں بغیر کسی مقصد کے نہیں ہیں ، یہ آفتاب کا طلوع وغروب ، ستاروں کا چمکنا اور جھلملانا یہ آسمان کا سقف زرنگار ، اور یہ اتنی بڑی زمین کا پھیلاؤ پہاڑ ، درخت ندی ، نالے ، اور طیور وبہائم ، ان سب چیزوں کو آخر خدا نے کیوں پیدا کیا ہے ، کیا یہ محض دلچسپی کے لئے ہے اور اتنے بڑے نظام سے کوئی فائدہ مقصود نہیں ، ؟ قرآن حکیم اس کا یہ جواب دیتا ہے ، کہ اس کائنات کا ایک مقصد ہے یہ محض اتفاقیہ امور نہیں بلکہ قدرت کاملہ اور شعور بالغہ ہے ۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ کائنات میں تمہیں ایک نظام وترتیب نظر آتی ہے ، زینت وآرائش معلوم ہوتی ہے جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یہ کباڑی کی دکان نہیں ، بلکہ علیم وحکیم خدا کی صنعت کا شاہکار ہے ، مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کی نیابت کا حامل ہو اور خدا دا وعلوم ومعارف سے دنیا کو جنت بنا دے اور ان تمام خرافات اور ادہام کو مٹا دے جن کا تعلق باطل سے ہے ، کیونکہ اصول ہے کہ حق اور باطل میں تصادم ناگزیر ہے ، اور بالآخر حق کو کامیابی اور نصرت حاصل ہوتی ہے اور باطل نیست ونابود ہوجاتا ہے ۔