مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ
ان کی مثال (34) اس شخص کی مثال (35) ہے جس نے آگ جلائی، جب اس آگ نے اس کے ارد گرد روشنی پھیلا دی، تو اللہ نے ان کا نور چھین لیا، اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا، وہ کچھ نہیں دیکھ (36) پا رہے ہیں
(ف ٢) اللہ ایسے لوگوں سے دنیا وآخرت میں سلوک بھی اسی طرح کا روا رکھتے ہیں کہ جو بجائے خود ایک قسم کا مذاق ہو نہ ایمان وذوق کی شیرینی سے یہ جماعت بہرہ ور ہوتی ہے اور نہ کفر والحاد کے فوائد ظاہری سے متمتع ، کفر اگر تذبذب کے خرخشوں سے معرا ہو تو کم از کم ظاہری وعارضی لذات سے محروم نہیں اور ایمان و عقیدت اگر شک وارتباب سے پاک ہو تو پھر دونوں جہان کے مزے ہیں ۔ اللہ بھی خوش ہے اور دنیا بھی تابع ۔ امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے دن جب یہ جنت کی طرف بڑھیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ یہ مقام سرور وجسور ہمارے لئے ہے تو یکایک ان میں اور جنات نعیم مین ایک دیوار حائل ہوجائے گی اور گویا یہ بتایا جائے گا کہ یہ جواب ہے تمہارے اس مذاق و استہزاء کا جسے تم فخریہ اپنے رؤساء دین سے ظاہر کیا کرتے تھے ۔ منافق کا نفسی تذبذب : ان آیات میں نہایت ہی بلیغ انداز میں منافقین کے نفسی تذبذب کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ کبھی تو ایمان کی مشعل فروزاں سے مستیز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی پھر کفر کی تاریکیوں میں جا کرتے ہیں ، ان کی مثال ایسے متحیر اور پریشان شخص کی ہے جو آگ جلا کے روشنی پیدا کرلے اور پھر یکایک اندھیرا ہوجانے پر اندھیاری میں ٹامک ٹونیاں مارتا پھرے ۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان روشنی ہے اور نفاق ظلمت وتاریکی ، مسلمان کے سامنے اس کا مستقبل ‘ اس کا نصب العین واضح اور بین طور پر موجود ہوتا ہے ، بخلاف منافق کے کہ اس کی زندگی کا کوئی روشن مقصد نہیں ہوتا ۔ حل لغات : یستھزی ۔ مضارع معلوم ، مصدر استہزاء ، مذاق کرنا ، توہین کرنا ۔ یمدھم ، مضارع معلوم ، ڈھیل دیتا ہے ، یعمھون ۔ مضارع معلوم ، اصل العمہ ، دل کا بصیرت سے معلوم ہوتا ۔ بصیرت کے اندھے کو اعمہ ۔ کہتے ہیں ، صمم ، بہرہ جس کے کان میں نقص ہو ، بکم ۔ جمع ابکم ، گونگا ، قوت گویائی سے محروم ، عمی ۔ جمع اعمی ، اندھا ، صیب ۔ بارش ، پانی سے لبریز بادل ، رعد ۔ بجلی کی کڑک اور گرج ، برق ، بجلی کی لمعاتی چمک ۔