فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ
پس کفار مکہ (آپ کے بارے میں) جو کچھ کہتے ہیں (٥٨) اس پر صبر کیجیے اور اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرنے کے لیے تسبیح پڑھیے، آفتاب طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اور رات کے کچھ اوقات میں بھی تسبیح پڑھیے، اور دن کی ابتدا اور انتہا کے وقت تاکہ آپ خوش رہیے۔
(ف ١) ان آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر وبرداشت کی تلقین فرمائی ہے کہ اگر یہ بدبخت بدزبانی اور دشنام طرازی سے باز نہیں آتے ، تو آپ ان سے اتنے بلند ہوجائیے کہ ان کو خود اپنے بداعمال پر ندامت محسوس ہونے لگے اللہ کی عبادت کیجئے ، اس کی حمد وستائش کا اظہار کیجئے اور ان کے تکلفات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے کہ یہ سب سامان عیش وطرب ان کے لئے وجہ آزمائش ہیں ، سچا دوست اور باقی رہنے والا سرمایہ وہ ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے خود قیام صلوۃ پر عمل کیجئے ، اور اپنے قریب کے لوگوں کو اس پر آمادہ کیجئے اور رزق کی جانب سے بےنیاز ہوجائیے ہم آپ کو دنیا کے افکار سے مستغنی کردیں گے ، تاکہ آپ فراغ قلبی کے ساتھ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا سکیں ، ان سب احکام کا مقصد یہ نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں صبر و برداشت کا مادہ نہیں تھا ، یا تسبیح وستائش کا جذبہ نہیں تھا یا ان کی نظر دنیا کے تکلفات پر تھی یا یہ کہ آپ دولت حاصل کرنے کی فکر میں تھے ، بلکہ بات یہ ہے کہ قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز بیان ہے ، کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو احکام کی شکل میں پیش کرتا ہے اس لئے دراصل ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ گو کفار مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بےحد ایذائیں پہنچاتے ہیں مگر آپ ان کے مقابلہ میں ہمہ تن صبر وبرداشت ہیں ، تسبیح وستائش رب العزت سے کام ہے ، اور گو کفار کی نظریں محض دولت وآسائش پر ہیں ، مگر آپ قطعا ان تکلفات سے بالا ہیں ۔ حل لغات : ازواجا : انواع واقسام کے لوگ : زھرۃ الحیوۃ : زندگی کا حسن وجمال :