سورة طه - آیت 115

وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد و پیمان (٥٠) لیا تھا، تو وہ بھول گئے اور ہم نے ان کے ارادے میں پختگی نہیں پائی۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٣) یہاں آدم (علیہ السلام) کی طرف معذرت بیان فرمائی ہے کہ ان سے اجتہادی لغزش کا صدور ہوگیا ، ورنہ قصدا نافرمانی کی جرات انبیاء میں نہیں ہوتی ، کیونکہ منصب نبوت کے معنے ہی یہ ہیں ، کہ اللہ کی فرمانبرداری کے جذبات کو عام کیا جائے ، اور بڑے بڑے سرکشوں کو رب العالمین کے سامنے جھکا دیا جائے ، پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ جو اطاعت شعاری کی تلقین کے لئے آیا ہے وہ خود نافرمانی وعصیاں کا ارتکاب کرے ؟ حل لغات : لا تظمؤا : ظما ، پیاس کو کہتے ہیں یہاں مراد پیاس کی تلخی اور ناگواری ہے مطلقا اشتہا مقصود نہیں ۔ شجرۃ الخلد : خلد کا درخت ، جس کا پھل کھا کر دوامی نعمت حاصل ہوجائے ۔ یخصفن : خصیف کے معنی اصل میں جوتا گانٹھنے کے ہیں ، یہاں مراد یہ ہے کہ وہ بدن پر پتے چپکاتے تھے ، عصے : اور عوے ، عصیاں اور غوانیہ کا لفظ ہے چھوٹی بڑی سب لغزشوں پر بولا جاتا ہے ۔