يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا
اس دن سوائے اس آدمی کے کسی کی شفاعت (٤٣) کام نہ آئے گی جسے رحمن شفاعت کرنے کی اجازت دے وار اس کی اس بات کو پسند کرلے (یا اس دن سوائے اس آدمی کے کسی کے لیے شفاعت مفید نہیں ہوگی جس کے لیے رحمن کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت دے دے اور اس کے لیے اس بات کو پسند کرلے)۔
(ف ١) ان آیات میں مسئلہ شفاعت ذکر کرکے اللہ کی وسعت علمی اور قدر مطلق کا اظہار فرمایا ہے ، ارشاد ہے کہ اس کی ذات ہمہ دان ہے ، کوئی چیز اور کوئی جگہ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ، بااقتدار ہے ایک وقت آئے گا ، جب کہ تمام جبینیں اس کے سامنے جھکی ہونگی ، کسی شخص کو لب کشائی کی جرات نہ ہوگی ، وہ جو چاہے گا ، ضرور ہوگا جو کرے گا عین معدات وانصاف قرار پائے گا اس لئے وہ لوگ جو اس کے احاطہ علمی کی وسعتوں سے آگاہ نہیں ہیں ، اور اس کے سامنے جرائم ومظالم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ وہ اس دن نامرادی اور ناکامی سے دوچار ہوں گے ۔ حل لغات : قاعا صفصفا : صاف اور ہموار میدان : امتا : بلندی ۔ الحی القیوم : زندگی اور حیات کا منبع اصلی اور تمام کائنات کے قائم اور باقی رکھنے والی ذات : علماء طبعیات حیران وسرگردان ہیں کی مادہ میں زندگی کہاں سے آگئی کیونکہ اس میں تو سوائے اشکال وصنور کی قبولیت کے اور کسی قسم کی استعداد موجود نہیں ، یہ خیال کہ زندگی جسم کی موزون ترکیب کا نام ہے ، اب غلط ثابت ہوچکا ہے ، علم الحیوانات کے ماہرین نے ایسے حشرات دریافت کئے ہیں جن کی ترکیب بالکل سادہ اور بسیط ہے مگر حیات اور زندگی ان میں موجود ہے ، قرآن حکیم یہ کہہ کر علماء طبیعات کی حیرانی دور کردیتا ہے ، کہ یہ تمام زندگی ’ حی “ یعنی خدائے زندہ کی طرف سے ہے اسی نے حیات کو پیدا کیا ہے اور وہی جب تک چاہتا ہے اسے باقی رکھتا ہے ۔