حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
اپنی نمازوں کی حفاظت کرو (332) اور بالخصوص بیچ والی نماز کی، اور اللہ کے حضور (333) پر سکون اور خشوع کے ساتھ کھڑے ہو
نماز اور معاملات خانگی : (ف ١) ان آیات میں جو بات قابل غور ہے ، وہ یہ ہے کہ نکاح وطلاق کے عین درمیان نماز کا ذکر ہے ، اس سیاق کا فلسفہ کیا ہے ؟ نکاح وطلاق کے مسائل جو یکسر خانگی معاملات ہیں ‘ نماز سے کیا تعلق وربط رکھتے ہیں جو خالص روحانی عبادت ہے اور کیوں نماز کو عین ان مسائل کے درمیان بیان کیا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قرآن حکیم مضامین کے بیان کرنے میں کسی اکتسابی اسلوب بیان کا محتاج نہیں ، اس کا انداز بیان اپنا ہے اور فطری ہے ، جس طرح انسان سوچتے وقت کسی خاص منطقی طریق کا پابند نہیں ہوتا اور خیالات تنوع کے ساتھ دماغ میں آتے ہیں ، اسی طرح قرآن حکیم کے مضامین اپنے اندر ایک عجیب تنوع لئے ہوئے ہیں جن میں گو مصنوعی ترتیب نہیں ہوتی ، مگر قدرتی ربط اس نوع کا ہوتا ہے کہ پڑھنے میں دلچسپی قائم رہتی ہے ۔ دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بتانا یہ مقصود ہے کہ نماز ومعاملات میں ایک گہرا ربط ہے ، وہ لوگ جو نماز تو پڑھتے ہیں ، مگر معاملات خانگی ہیں اچھے ثابت نہیں ہوتے ، وہ نماز کا مفہوم نہیں سمجھتے ، نماز ایک خاص نوع کی روحانی ریاضت ہی کانام نہیں ، بلکہ اس کا تعلق اعمال کے ساتھ ہے اور اس حد تک ہے کہ وہ لوگ جو حقوق الناس کا خیال نہیں رکھتے صحیح معنوں میں عبادالرحمن نہیں ، نماز کے معنی ایک ذہنی عملی انفرادی اور اجتماعی انقلاب کے ہیں جو نماز میں پیدا ہوجاتا ہے یعنی نماز پڑھنے سے نماز کا ہر حصہ زندگی متاثر ہوتا ہے ، بلکہ بدلتا ہے ۔ (آیت) ” ان الصلوۃ تنھی عن الفحشآء والمنکر “۔ کا یہی مفہوم ہے ۔ صلوۃ وسطی سے مراد بہتر ، زیادہ مراتب ودرجات کی حامل نماز کے ہیں ، اس لئے لفظ وسط جس کے معنی درمیان کے ہوتے ہیں ، اس سے تفصیل کا صیغہ مشتق نہیں ہوتا ، پھر اس کے مصدوق میں اختلاف ہے ۔ زیادہ قرین صحت یہ ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ نماز کی تاکید اس قدر زیادہ ہے کہ حالت جنگ میں بھی اسے ترک نہیں کیا جاسکتا ، اگر سواری کی صورت میں ممکن ہو تو سواری پر پڑھ لے ، ورنہ کھڑے کھڑے ادا کرلے ، بہرحال معاف نہیں ہو سکتی ، اس لئے کہ یہی تو وہ چیز ہے جس سے فرائض کا احساس ہوتا رہتا ہے اور جس سے مسلمانوں کی فلاح وبہبود وابستہ ہے ۔