فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اس کے بعد شوہر اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دے (324) تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے، پھر اگر دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے، تو دونوں کے لیے کوئی حرج کی بات نہیں کہ آپس میں مل جائیں، اگر نہیں یقین ہو کہ اللہ کے حدود کو قائم رکھیں گے، اور یہ اللہ کے حدود ہیں، جنہیں وہ جاننے والی قوم کے لیے بیان کر رہا ہے
حق خلع : البتہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر عورت کی طرف سے مطالبہ تخلی ہو تو وہ دے دلا کر مرد کو راضی کرلے اور طلاق حاصل کرلے ، اس کا نام اسلامی اصطلاح میں خلع ہے ، یہ عورت کا حق ہے جو اسلام نے بخشا ہے مگر افسوس کہ آج عورتیں اس حق سے محروم ہیں ۔ (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ جب عدت میں رجوع کی گنجائش ہو اور اس وقت دو ہی صورتیں ہیں ، یا تو حقوق زوجیت ادا کیا جائے اور پھر انہیں باقاعدہ شرافت کے ساتھ الگ کردیا جائے ، انہیں محض دیکھ دینے کے لئے بار بار رجوع کرنا ، جیسے جاہلیت کے زمانہ میں کرتے تھے ، ناجائز ہے کیونکہ نکاح ایک مقد عہد ہے جس کی رعایت حتی الوسع ضروری ہے اور جب آدمی مجبور ہی ہوجائے تو پھر الگ ہوجائے ، مگر تکلیف نہ دے ، اس لئے یہ اخلاق وتقوی کے خلاف ہے ۔ (آیت) ” بلغن اجلھن سے مراد اس زمانہ آخری کے قریب قریب پہنچنا ہے کیونکہ وقت گزر جانے کے بعد تو اسلام نے رجوع کا حق ہی نہیں رکھا ، تاوقتیکہ وہ مطلقہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرے اور وہ اپنی مرضی سے اسے دوبارہ طلاق نہ دے دے ، جسے فرمایا (آیت) ” حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ اس صورت میں دوبارہ نکاح ہو سکے گا ۔ اسلام نے یہ سختی اس لئے روا رکھی کہ جانبین کو طلاق کی خرابیوں کا پورا پورا احساس ہو اور وہ جان لیں کہ ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ ہوجانے کے بعد مل بیٹھنے کا پھر کوئی موقع نہیں ، تاکہ ان کے جذبہ وغیرت وحمیت کو ٹھیس لگے اور وہ اس مشنوم اقدام سے باز آجائیں اور تاکہ دونوں کو معلوم ہوجائے کہ کس طرح ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ رہ کر زندگی کے دن پورے لئے جا سکتے ہیں ، یوں جہاں تک نظام طلاق کا تعلق ہے ، اسلام نے اسے نہایت مشکل مسئلہ بنا دیا ہے ، مرد و عورت کو اصلاح حالات کا پورا پورا موقع دیا ہے ، مثلا یہ فرمانا کہ (آیت) ” فطلقوھن لعدتھن “ ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی عارضی نفرت نہ ہو جو مرد کو طلاق پر آمادہ کرے ، (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ کہہ کر گویا مہلت دی ہے کہ اس عرصے میں رجوع کرلے ، پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ ” الطلاق ابغض المباحات “۔ کہ طلاق بدترین جواز ہے ، بجائے خود یہ ترغیب مصالحت ہے ، ان حالات کے بعد بھی اگر کوئی مجبور ہوجائے تو پھر ظاہر ہے کہ ان کو ایک مدت تک الگ ہوجانا چاہئے اور انتظار کرنا چاہئے ، اگر عورت بیوہ ہوجائے یا دوسرا خاوند طلاق دیدے اور عورت پر نکاح پر راضی ہو تو پھر رشتہ ازدواجی میں منسلک ہوجائیں ، ورنہ اپنے کئے کی سزا بھگتیں ۔