الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
طلاق شرعی (دو طہروں میں) دو بار (321) ہے، اس کے بعد یا تو نیک نیتی کے ساتھ بیوی کو روک لو، یا بھلائی کے ساتھ اسے چھوڑ دو، اور تم نے جو کچھ انہیں (مہر میں) دیا تھا، اس میں سے کچھ واپس لینا حلال نہیں (322) الا یہ کہ میاں بیوی کو ڈر ہو کہ وہ اللہ کے حدود قائم نہیں رکھ سکیں گے، اگر تمہیں ڈر ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود قائم رکھ سکیں گے، اس لیے بیوی اگر کچھ مال (شوہر کو) بطور فدیہ دے دے (323) تو ان دونوں کے لیے کوئی حرج کی بات نہیں، یہ اللہ کے حدود ہیں، انہیں تجاوز نہ کرو، اور جو لوگ اللہ کے حدود سے تجاوز کر جائیں وہی لوگ ظالم ہیں
(ف ١) ان آیات میں طلاق کی تحدید فرما دی ، زمانہ جاہلیت میں لوگ بار بار طلاق دیتے اور رجوع کرلیتے جس کی وجہ سے عورتیں بیچاری مردوں کے مظالم کی تختہ مشق بنی رہتیں ، اسلام نے عورتوں پر یہ احسان کیا کہ طلاق کی تحدید کردی ، (آیت) ” تسریح باحسان “ کے معنی یہ ہیں کہ حسن معاشرت اور اخلاق عالیہ بہرحال قائم رہیں ، عورت کو طلاق دینے کے معنی صرف یہ ہونا چاہئیں کہ وہ باعزت طور پر رشتہ مناکحت کو توڑ دے اور بس عورت کو بدنام کرنا یا اس کی توہین کرنا درست نہیں ، بلکہ اگر ایسے مواقع پر عورت کو کچھ دے دے ، بطور الوداعی تحفے اور یادگار کے طور پر تو یہ زیادہ موزوں ہے ، وہ عورت جو مدتوں تمہاری رفیق حیات رہی ہے ‘ کیا اس وقت تمہارے حسن اخلاق کی مستحق نہیں ۔ احسان کی ایک صورت یہ ہے کہ جو کچھ اسے دیا گیا ہے طلاق کے وقت واپس نہ لیا جائے ، حل لغات : تسریح : چھوڑ دینا ۔ افتدت : فدیہ یا معاوضہ دیا ۔