وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور مطلقہ عورتیں تین حیض (320) گذر جانے تک انتظار کریں گی، اور اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں، تو جو بچہ اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کردیا ہے اسے چھپانا ان کے لیے حلال نہیں، اور ان کے شوہر اگر اصلاح کی نیت رکھتے ہوں تو انہیں لوٹا لینے کے زیادہ حقدار ہیں اور بیویوں کے شوہروں پر عرف عام کے مطابق حقوق ہیں، جس طرح شوہروں کے ان پر حقوق ہیں اور مردوں کو عورتوں پر ایک گنا فوقیت حاصل ہے اور اللہ زبردست اور بڑا صاحب حکمت ہے
مطلقہ اور اس کی عدت : (ف ٢) اسلام نے جہاں عورت کی عزت وحرمت کا جائز اعتراف کیا ہے وہاں اس نے اس کی نفسیات کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے اور جو بات کہی ہے وہ عین فطرت نسوانی کے لئے مفید ہے ، مثلا طلاق اصولا دونوں دونوں طرف سے ہو سکتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے اس درجہ شکایت ہو سکتی ہے کہ وہ علیحدہ ہوجانے پر مجبور ہوں ، مگر عورت از خود اس کی مجاز نہیں اور یہ اس لئے کہ عورت فطرتا عقل سے جذبات کی زیادہ تابع ہوتی ہے ، اسے اگر طلاق وتخلی کے اختیارات دے دیئے جائیں تو وہ اپنی زندگی نہایت تکلیف میں بسر کرے اور تلخ کرلے ۔ وہ لوگ جنہوں نے اسلامی نظام طلاق کا مطالعہ نہیں کیا ، معترض ہیں کہ دیکھئے اسلام نے کس طرح عورت کے حق ازواج کو چھین لیا ہے اور ہر وقت اسے طلاق کے ڈر سے سہما رکھا ہے ، حالانکہ طلاق کی حیثیت بغض المباحات کی ہے یعنی ناپسندیدہ مگر ناگزیر علیحدگی کی کیا اس قسم ونوع کے حالات پیدا نہیں ہوتے ، کہ میاں بیوی الگ ہوجائیں ، اس سے دونوں کی عزت محفوظ ہوجاتی ہے ، دونوں ایک دوسرے کی جانب سے عافیت میں ہوجاتے ہیں اور دونوں آزاد ہوجاتے ہیں کیا شادی کرلینے کے بعد مرد بہرحال نباہ کرنے پر مجبور ہے جبکہ اس کا دل نہیں چاہتا ۔ بات یہ ہے کہ ہم معاملات کو واقعات اور انسانی فطرت کی روشنی میں نہیں دیکھتے بلکہ ان کی محض منطق وقیاس کی رو سے دیکھتے ہیں ۔ یعنی ہم صرف معاملہ کے اس پہلو کو بھول جاتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ قرآن حکیم نے مطلقات کو تین قروء کی جو رعایت دی ہے اس لئے ہے کہ شاید دونوں میں صلح ہوجائے اور دونوں پھر بدستور میاں بیوی رہیں ، مطلقات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو مدخولہ ہوں اور حاملہ نہ ہوں ، غیر مدخولہ کا حکم الگ ہے ، اس کے متعلق فرمایا (آیت) ” فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا “۔ حاملہ کے متعلق ارشاد فرمایا : (آیت) ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “۔ قروہ کے متعلق اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک اس سے مراد مدت ظہر ہے اور بعض کے نزدیک مدت حیض اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ قروء زوات الاضداد میں سے ہے ، اس کا اطلاق حیض اور ظہر دونوں پر ہوتا ہے ، قروء کے اصل معنی مدت واجل کے ہیں جیسے ھبت الریاح لقرونھا ، چونکہ ظہر وحیض دونوں ایک قسم کی مدت ہیں ‘ اس لئے دونوں پر لغوا اطلاق درست ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن و احادیث میں یہ لفظ دونوں معانی میں برابر استعمال ہوا ہے حیض کے لئے جیسے فرمایا ” دعی الصلوۃ ایام اقرائک بالطلاق الامۃ تطلیقتان وعدتھا حیضتان “۔ ظہر کے لئے جیسے قرآن میں فرمایا (آیت) ” فطلقوھن لعدتھن “ اور ظاہر ہے کہ عدت طلاق طہر ہے ، مگر مقصد چونکہ مہلت دینا ہے ‘ اس لئے اوسع اور تین مراد لیا اور یہ منشائے شریعت کے زیادہ مطابق ہوگا ، لہذا حیض زیادہ قرین قیاس ہے اور یوں دونوں معانی کے لئے گنجائش ہے ، عورت کو یہ ہدایت کی کہ ہو جو کچھ اس کے رحم میں ہے چھپائے نہیں ، اس لئے کہ فیصلہ اس صورت میں صرف عورت کی بات پر ہوگا ۔ یہ بھی فرمایا کہ اثنائے عدت میں مردوں کو اختیار رجوع ہے ، اگر وہ اصلاح چاہیں ، اس کے بعد یہ بتایا کہ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ، بجز اس کے کہ مردوں کے ذمہ نفقہ وقیام کی ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں ، اس لئے معمولی باتیں طلاق وتخلی کا باعث نہ بنیں اور حتی الوسع صلح کرلی جائے ۔