وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى ۗ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَّرَدًّا
اور جو لوگ سیدھی راہ (٤٧) پر چلتے ہیں اللہ ان کی مزید رہنمائی کرتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں، اور نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ اچھی ہیں۔
(ف ١) اللہ تعالیٰ کا جس طرح یہ قانون ہے کہ مجرموں کو اس وقت تک نہیں پکڑتا ، جب تک وہ گمراہی وہلاکت کی آخری منزلوں میں نہیں پہنچ جاتے اسی طرح اس کا یہ بھی قانون ہے کہ پاکباز لوگ جب اس کی ہدایت قبول کرلیتے ہیں تو وہ مزید توفیق واستعداء کے دروازے کھول دیتا ہے اور ان کے دلوں کو معارف وحکم سے معمور کردیتا ہے ، وہ نیکی اور تقوی کی صحیح قدروقیمت سے آگاہ ہوجاتے ہیں ، ان کی زندگی کا نصب العین یہی قرار پاتا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو کر رہیں انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کو دنیائے فانی میں باقی اور ہمیشہ رہنے والی چیز مال ودولت نہیں سیم وزر ۔ تمہیں اولاد کی فراوانی نہیں ، بلکہ اعمال صالحہ اور نیکیاں ہیں جو مال اور نتیجہ کے لحاظ سے دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہیں ۔ العاص بن وائل سے حضرت خباب بن الارت (رض) نے مزدوری طلب کی تو اس بدبخت نے کہا کہ میں تو اس وقت تک تمہیں تمہارا حق نہیں دوں گا ، جب تک کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی رسالت کا انکار نہ کر دو ، خباب نے عشق محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں سرشار ہو کر کہا ، کہ یہ تو کبھی ممکن نہیں ، نہ زندگی میں نہ موت کے وقت نہ اس وقت جب کہ تم خدا کے ہاں پیش کئے جاؤ گے اس کمینے نے اس جذبہ کی ہنسی آڑائی اور کہا کہ بعثت کا عقیدہ اگر بقول تمہارے صحیح ہے ، تو میں وہاں بھی آخر اسی حیثیت سے جاؤں گا ، وہاں معاملہ چکا دوں گا مطمئن رہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یہ اسے کیونکر معلوم ہوگیا ، کہ عقبے میں بھی اس کی یہ مالداری کی حیثیت قائم رہے گی ، کیا امور غیب وہ جانتا ہے ، یا اللہ سے اس نے اس بات کا عہد لیا ہے ۔ ارشاد ہے ، ایسا ہرگز نہ ہوگا ، وہ عذاب کیا جائے گا ، اور ہمارے روبرو نہایت بےبسی اور بیچارگی کے ساتھ پیش کیا جائے گا ۔