سورة مريم - آیت 75

قُلْ مَن كَانَ فِي الضَّلَالَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَٰنُ مَدًّا ۚ حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضْعَفُ جُندًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجیے کہ جو گمراہ (٤٦) ہوجاتا ہے، اسے رحمن خوب ڈھیل دے دیتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے یا دنیاوی عذاب یا قیامت تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ مرتبہ کے اعتبار سے کون زیادہ برا ہے، اور افراد کے اعتبار سے کون زیادہ کمزور ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) کفار مکہ کے سامنے جب اللہ کی واضح تین آیتیں پڑھی ہوئیں اور ان کو اسلام کی طرف رعیت دی جاتی تو وہ کہتے کہ ہمارے لئے اسلام کیونکر خیروبرکت کا سبب ہو سکتا ہے ، جب کہ تم خود اچھی حالت میں نہیں ہو ، تم مفلس ہو ، کمزور وناتوان ہو ، اور ہمیں اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہے ، ہماری حیثیت تم سے کہیں بلند ہے ہم شان وشوکت اور نام ونمود کے لحاظ سے تم سے بہت بڑھ کر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کوتاہ نظر ہو ، تمہاری نگائیں ہمیشہ واقعات کی سطح پر رہتی ہیں ، تم نے کبھی اقوام کی تاریخ اٹھا کر دیکھی ہے ؟ تم نے کبھی قوموں کے عروج وزوال کی داستان سنی ہے اور تم نے کبھی کوشش کی ہے ، کہ ان تباہیوں اور ہلاکتوں کے اسباب تک پہنچو جن وجہ سے بڑے بڑے جابر وقت کی نیند سو گئے ، تو اپنی ظاہر حالت پر مغرور ہو ، تھوڑی سی پونجی اور دولت پر تماہرے گھمنڈ کا یہ عالم ہے کہ حق کی آواز کو ٹھکرا رہے ہو ، تم نہیں جانتے ہو کہ بہت سی قومیں اس دنیا میں شان وحشمت کے ساتھ نمودار ہوئیں اور بالآخر رسوائی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صفحہ دہر سے مٹ گئیں ، آج ان کا نشان تک نہیں ملتا ، کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے ظاہری ٹھاٹ پر اتنا بھروسہ کیا ، کہ اللہ کے فرامین کو بھول گئے ، اور اللہ کے بندوں کو محض اس لئے حقیر وذلیل سمجھا کہ ان کے پاس دولت ایمان کے ساتھ سیم وزر کے انبار کیوں موجود نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم جلد باز اور مستعجل نہیں ، گنہگار کو سنبھلنے ، اور اصلاح اعمال کا پورا پورا موقع عنایت فرماتے ہیں ، اس کے آرام وآسائش میں یکایک مداخلت نہیں کرتے ، اور نہیں چاہئے کہ بغیر انتباہ اس کو تباہ کردیں مگر انسان کہ از راہ کج فہمی اس ڈھیل کو جو ہماری رحیمیت پر مبنی ہے اپنی لئے گناہی اور صداقت شعاری پر محمول کرتا ہے ، اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر اس کی سرکشیاں اسی طرح باقی رہیں ، اور اصلاح کے مواقع سے اس نے استفادہ نہ کیا تو اللہ کا عذاب اس کو آگھیرے گا ، یا قیامت میں جب اس کو عمدہ ٹھکانا نہ ملے گا ، اور کوئی یار ومددگار یاوری نہ کرسکے گا تب اس کو محسوس ہوگا کہ پاکباز اور مسکین مسلمان آج مجھ سے کہیں زیادہ حیثیت میں ہے ۔