ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَٰنِ عِتِيًّا
پھر ہر جماعت میں سے ہم ایسے لوگوں کو جدا (٤٣) کریں گے جو اللہ سے سرکشی میں زیادہ تیز تھے۔
حشر کا ثبوت اور لفظ درود کی تشریح : (ف ١) اس سے قبل کی آیت میں عبادت واستقلال کی تلقین کی گئی تھی اس میں اس شبہ کا ذکر ہے جو منکرین کے دل میں پیدا ہوتا ہے ، اور جس کی وجہ سے وہ اللہ کی عبادت سے روگردان رہتے ہیں ، وہ شبہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد کیونکر ہم دوبارہ جی اٹھیں گے ، اور یہ کسی طرح ممکن ہے ، کہ بوسیدہ ہڈیاں پھر سے لحم وشحم کی حامل ہوجائیں ، اور رگوں میں زندگی کا خون ڈوڑنے لگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم اپنی پیدائش پر غور کرو کیا اس سے پہلے تمہارا کہیں وجود تھا آج تم کبر وغرور کی وجہ سے اللہ کے سامنے سر نیاز نہیں جھکاتے ہو مگر کیا اسی خدا نے تمہیں خلعت وجود نہیں بخشا ؟ سمجھو اور یقین کرو ، کہ جس نے تمہیں پہلی دفعہ پیدا کیا ہے ، وہ وہ اور زندہ کرسکے گا ، (آیت) ” قل یحییھا الذی انشاھا اول مرۃ “۔ کیونکہ جو کتم عدم سے انسان کو منصہ شہود پر جلوہ افگن کرسکتا ہے وہ فنا کے بعد بھی مکرر بقا کی نعمتوں سے بہرہ ور کرسکتا ہے ، (آیت) ” وھو الذی یبرؤ الخلق ثم یعیدہ وھو اھون علیہ “۔ (آیت) ” فوربک “۔ سے مراد اللہ کی ربوبیت کو حشر کے لئے بطور ثبوت وبرہان کے پیش کرنا ہے یعنی اگر اس دنیا کا نظام کسی ربوبیت وقلم کا مرہون منت ہے ، تو پھر اس کا کھلا تقاضا یہ ہے ، کہ مکافات عمل کے لئے ایک الگ عالم کا وجود تسلیم کیا جائے جہاں کا قانون سب کے لئے قابل عمل ہو ، جہاں مظلوم کی فریاد سنی جائے ، اور ظالم کو سزا دی جائے ، جہاں سفارش اور سرمایہ داری کے تمام امتیازات اٹھ جائیں ، جہاں کمزور اور پاکباز انسانوں کو اللہ کے خلاف عدم مساوات کا گلہ نہ رہے ، اور جو ایسا مقام ہو کہ اس میں صرف اپنے اعمال زندگی ومسرت کا باعث ہو سکیں ، چنانچہ ارشاد ہے کہ ہم تمام منکرین اور مشرکین کو مع ان کے معبودان باطل کے جہنم کے گردا گرد جمع کریں گے پھر ان میں زیادہ سخت مجرمین کو چھانٹ لیں گے ، اور دیکھیں گے کہ ان میں سے کون کون لوگ نار جحیم کے مستحق ہیں ، یعنی یہ سب باتیں قاعدہ اور تقسیم کے ماتحت ہوں گی ، ثم کا لفظ یہاں تراخی بیان کے لئے ہے ،