أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩
یہی وہ انبیاء (٣٦) ہیں جن پر اللہ نے اپنا خاص انعام کیا تھا، جو آدم کی اولاد اور ان کی اولاد سے تھے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا اور جو ابراہیم اور یعقوب کی اولاد سے تھے اور وہ ان میں سے تھے جنہیں ہم نے ہدایت دی تھی اور جنہیں ہم نے چن لیا تھا، جب ان کے سامنے رحمن کی آیتوں کی تلاوت ہوتی تھی تو سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے زمین پر گر جاتے تھے۔
پاکباز اسلاف : (ف ١) یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان کے دریا موجزن تھے ، جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق مرحمت فرمائی تھی ، اور جو سب مقبول بندے تھے ، ان لوگوں کی کیفیت یہ تھی کہ جب ان کے سامنے ان کے مہربان خدا کا کلام پڑھا جاتا ، تو یہ فرط عقیدت سے اس کے سامنے جھک جاتے ، اور رقت وانفعال کے جذبات ان پر طاری ہوجاتے ، اللہ کے حضور میں سجدہ کناں روت ، اور کمال عجز ومحبت کا اظہار کرتے ۔ غرض یہ ہے کہ وہ لوگ جو ان حضرات سے تعلق وارادت رکھتے ہیں ان کو چاہئے کہ ان کے دلوں میں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت کا جوش ہو اور وہ بھی انہیں پاکیزہ جذبات کے حامل ہوں ، وہ بھی خدا کے احکام کو نیاز مندانہ سنیں ، اور نماز وعبادت میں خلوص کے ساتھ مشغول ہوں ، بات یہ تھی کہ عرب باوجود مشرکانہ رسوم کے ان انبیاء کے ناموں سے آگاہ تھے ، اور مسلمانوں کے سامنے ان سے ایک گونہ تعلق کا اظہار کرتے تھے اور گاہ گاہ کہتے تھے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ، ان کے خیال میں مسلمان جن تعلیم کو مانتے تھے ، وہ ان انبیاء کی تعلیم سے بالکل مختلف تھی چنانچہ وہ مسلمانوں کے خیالات کو بدعت سے تعبیر کرتے اور علی الاعلان کہتے کہ ہمارے علماء اور آباء واجداد ہرگز ان خیالات کے حامی نہ تھے ، اس لئے قرآن حکیم کو ضرورت محسوس ہوئی ، کہ وہ انبیاء کے حالات بیان کرے ، اور ان کی تعلیمات واضح طور پر پیش کرے اور بتائے کہ تم راہ راست پر گامزن نہیں ہوتے کہ ان کو اپنے غلط مسلک پر تنبیہ ہو ، اور کج روی سے باز آئیں ۔