وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
اور آپ قرآن میں ابراہیم کو یاد (٢٣) کیجیے وہ بیشک سچے کردار کے اور نبی تھے۔
(ف ١) یہ تیسرا قصہ ہے ، مکے کے منکرین حق بظاہر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عقیدتمندی کا دم بھرتے اور احترام کرتے تھے ، اللہ نے فرمایا کہ کمبختو ! اگر تم واقعی طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ارادت رکھتے ہو تو پھر یہ بت پرستی کیسی ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے دوستی ، محبت کا دعوئے اور یہ شرک کا ارتکاب ، یہ دو چیزیں کیونکر جمع ہو سکتی ہیں ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو صدیق تھے یعنی توحید اسلامی کے برجوش علمبردار ، انہوں نے توحید کے پھیلانے میں کبھی تعلق کا پاس نہیں کیا انہوں نے اپنے باپ کو جب دیکھا کہ بت پرستی کے مرض میں مبتلا ہے تو برملا کہہ دیا ، ابا ! ان بتوں کی پرستش کیوں کرتے ہو جن میں قوت سنوائی نہیں دیکھ بھی نہیں سکتے ، اور قطعا ناکارہ ہیں ، کیا تم لوگوں میں یہ جرات ہے کہ اپنے عزیزوں کی مخالفت کرسکو ، اپنے ہم قوم اور ہم قبیلہ لوگوں کو شرک کی برائیوں سے باز رکھ سکو ، کیا تم میں ہمت ہے کہ جرات کے ساتھ عقیدہ توحید کو قبول کرلو ، اور کھلے بندوں بتوں کی بیچارگی کا اعلان کر دو ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس وقت پیدا ہوئے جب بابل اور قرب وجوار میں ستارہ پرستی ، اور بت پرستی کا رواج عام تھا ، جب ہر جگہ بت پرستی کے بڑے بڑے ہیکل موجود تھے ، اور حکومت وقت ان کی موید تھی ، وہ جب جوان ہوئے اس صورت حالات کو گوارا نہ کرسکے ، اس لئے بتوں کے خلاف جہاد شروع کردیا ، اور نمرود تک جا متصادم ہوئے ، انہوں نے بتایا کہ یہ آسمان پر چمکنے والے تمام چھوٹے بڑے ستارے آفل (ناپید ہونے والے ) ہیں سب غروب اور زوال وفنا کی منزلوں سے گزرتے ہیں ، اس لئے یہ خدا نہیں ہو سکتے ، خدا وہ ہے جس نے ان سب کو تابانی بخشی ہے ، اور جو ان سب کا پیدا کرنے والا ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اسلامی میں خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا ہے اور سب سے پہلے اپنے باپ کی اصلاح کے لئے کوشش کی تاکہ مصلحین کو معلوم ہو کہ تبلیغ ودعوت کا صحیح اور مؤثر طریق کیا ہے ؟ صحیح معنوں میں تبلیغ یہ ہے کہ پہلے قرب کے ماحول کی درستی کی جائے جب وہ سنور جائے تو پھر آہستہ آہستہ قدم باہر نکالے جائیں ۔ حل لغات : صدیق : انتہا درجہ کا صداقت شعار وہ شخص جس کا دل اور زبان یکساں حق پذیر ہوں ، العلم : یعنی وحی ۔ عصیا : نافرمان عصیان سے ہے ۔