سورة الكهف - آیت 109

قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہیئے کہ اگر میرے رب کے کلمات (٦٤) لکھنے کے لیے سارا سمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر خشک ہوجائے گا، چاہے مدد کے لیے ہم اسی جیسا اور سمندر لے آئیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خدا کا علم : (ف ٣) اس سورۃ میں اصحاب کہف ، موسیٰ (علیہ السلام) و خضر (علیہ السلام) ، اور ذوالقرنین کے قصوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے حکم ومعارف کے دریا بہائے ہیں بتایا گیا ہے کہ کیونکر حق وصداقت کے لئے ثبات ، دوام مقدرات میں سے ہے اور اللہ کا علم کس قدر وسیع ومتنوع ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) وخضر (علیہ السلام) دونوں اس بحر بیکراں سے استفادہ کرتے ہیں ، فرمایا ہے کہ حکمرانی اور طاقت بخشی صرف میرے اختیار میں ہے ، میں جسے چاہوں سرفراز کروں اور جسے چاہوں چشم زدن میں فنا وذلت کے گھاٹ اتار دوں ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی وسعت علم اور عظمت شان کا ذکر فرمایا ہے ، یہ بتایا ہے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ میرا علم انبیاء اور ان ہی کتابوں تک محدود ہے تم میرے علم کی وسعتوں کو نہیں پا سکتے یہ قصے رشد وہدایت کے طریقے اور دوزخ اور جنت کی تفصیلات تو بقدر ضرورت تم کو بتا دی گئی ہیں ، ورنہ میری بےشمار عجائبات قدرت ہیں ، اور بےانتہاء اعطاف وکرم اور جودوعطا جن کی تعبیر کے لئے تمہارے پاس الفاظ تک نہیں ، میری صفات بےحد کے سامنے سمندر ایک قطرہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے ، کہ مذہب نے اب تک جو کچھ اللہ تعالیٰ کے متعلق بتایا ہے اور ہمارے علوم نے جس حد تک ترقی کی ہے ، اور فطرت کے چہرے سے نقاب اٹھائے ہیں اور ذات حق کے بارہ میں انسان جو کچھ سمجھا ہے ، محض بقدر ظرف واستعداد کے ہے ورنہ ذات باری اور اس کے لامحدود قوانین کے متعلق جو ہم نہیں جانتے ہیں ، وہ بمنزلہ صفر کے ہے ہمارا علم محدود ہے اور وہ ذات اقدس لا محدود اسی لئے فرمایا ہے فخر دو عالم خیر البشر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک “۔ حل لغات : وزنا : وہ ” قدر “ جو اعمال کی قیمت ہے ، فردوس : جنت کا ایک نام ہے ۔