إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا
بیشک ہم نے سرزمین پر اسے (٥٢) حکومت تھی تھی اور ہر چیز کے لیے اسے سامان دیا تھا۔
(ف ١) قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ یہودیون کے تعلقات مشرکین مکہ سے بہت زیادہ تھے ، بنا برین مشرکین مکہ ان سے اسلام کے متعلق اعتراضات پوچھتے رہتے ، انہوں نے کہا ہوگا پیغمبر اسلام سے ذوالقرنین کے متعلق دریافت کرو ، تاکہ معلوم ہو کہ اس کا مبلغ علم کیا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا ، یہ آیات جواب میں نازل ہوئیں ۔ قرآن حکیم کا مخصوص طرز بیان ہے ، کہ وہ غیر ضروری تفصیلات کو چھوڑ دیتا ہے اور قصے کے صرف اس حصہ کو بیان کرتا ہے جس کا تعلق انسانی رشد وہدایت سے ہے ، چنانچہ قرآن حکیم نے بتایا ، کہ خدائے تعالیٰ نے اسے وسیع اقتدار دے رکھا تھا ، وہ بہت بڑا فاتح تھا ، اس کا شوق فتحیابی اسے سمندر کے کنارے تک لے گیا ، جہاں اس نے سورج کو دیکھا ، کہ گولے پانی میں ڈوب رہا ہے یعنی وہ خشکی سے بہت دور ہے ، وہاں ایک قوم آباد تھی ، اس نے درخواست کی کہ ہم سے ظالمانہ سلوک نہ کیا جائے ہم مروت واحسان کے خواہشمند ہیں ، ذوالقرنین نے انہیں تسلی دی اور کہا تم غم نہ کھاؤ میں نیکوکاروں سے نیک سلوک کروں گا ۔ حل لغات : ذوالقرنین : قون وسعت یا حصہ اقتدار سے تعبیر ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سے کہا تھا ” ان لک بیتا فی الجنۃ وانت ذوقرینھا “۔ مکنا : مکنت سے ہے جس کے معنی قدرت اور توانگری کے ہیں ۔ تعرب : مراد یہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا ، اسی لئے وجدھا کا لفظ استعمال کیا ہے ۔