وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا
اور وہ دیوار، اس شہر میں رہنے والے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا، تو تمہارے رب نے چاہا کہ وہ بھرپور جوان ہوجائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، یہ آپ کے رب کی ان کے لئے رحمت تھی، اور یہ سارے کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کئے ہیں، یہی تاویل ہے ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہیں کرسکے تھے۔
(ف3) دیوار کے متعلق بتایا کہ اس کے نیچے یتیموں کا ایک خزانہ مخفی تھا ، اگر اس کو گرنے سے نہ بچا لیا جاتا ، تو لوگ یتیموں کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی لوٹ لیتے اور اس طرح وہ ایک بہت ضروری اعانت سے محروم رہتے ، بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جس طرح حضرت خضر کا الہام موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے بظاہر مخالف تھا ، اسی طرح ہو سکتا ہے کہ اولیاء اللہ کا امام طریقت ظاہری شرع کے مخالف ہو ، اور حقیقت میں درست ہو ۔ یہ استدلال غلط ہے ، حضرت خضر (علیہ السلام) کے الہامات بالکل موسوی شریعت کے مطابق تھے ، بات صرف یہ تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دقت نظر سے کام نہیں لیا ، اور قانون کا مقصد محض یہ سمجھا کہ اس کا تعلق ظواہر امور سے ہے ، خضر نے انہیں بتایا کہ یہ درست نہیں ، شریعت ظاہر وباطن پر محتوی ہوتی ہے ، پیغمبر وہ ہے جس کی نگاہ واقعات اور حقائق کی گہرائیوں تک پہنچے ۔