سورة الكهف - آیت 28

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو لوگ (١٧) صبح و شام اپنے رب کو اس کی رضا جوئی کے لیے پکارتے رہتے ہیں ان کے ساتھ اپنے آپ کو روکے رکھیئے اور دنیاوی زندگی زندگی کی زیب و زینت کی خواہش میں آپ کی آنکھیں ان سے پھر نہ جائیں اور آپ اس آدمی کی پیروی نہ کیجیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کی اتباع کرتا ہے، اور جس کی نافرمانی کا معاملہ حد سے تجاوز کرگیا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پیغمبر مساکین : (ف ١) قرآن حکیم میں بعض باتیں بصیغہ امر ادا کی گئی ہیں ، مگر اس سے مراد خبر ہے ، اور ایک واقعہ کا اظہار ہے ، اور اس کی بہت سی مثالیں ہیں یہاں بھی بالکل یہی انداز بیان ہے ، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاید ان عام لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا پسند نہ فرماتے تھے جو غریب اور مفلس تھے ، اور قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آپ ان لوگوں کے ساتھ رہنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں ، حالانکہ واقعہ بالکل اس کے خلاف ہے ، بات یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ ابو ذر (رض) ، سلمان فارسی (رض) ، اور اس قسم کے غریب اور مخلص عقیدتمندوں میں بےتکلفی سے بیٹھتے ، اور انہیں صبح وشام وقت گزارتے ، امراء کو یہ ناگوار تھا ، کہ وہ اس حالت میں آپ سے ملیں ، چنانچہ وہ کہتے کہ جناب ہم اس حلقے میں بیٹھ کر آپ سے گفتگو نہیں کرسکتے ، ان کے کپڑوں سے بو آرہی ہے ، اور ہماری طبیعت میں تکدر پیدا ہوتا ہے ، آپ بھی ان سے الگ ہوجائیے ، مگر وہ پیغمبر جو افلاس وفقر کو اعزاز بخشنے کے لئے آیا تھا ، کیونکر ان کی باتوں کو مان لیتا ، قرآن کی زبان میں ان کو بتایا گیا ، کہ گو یہ مفلس ہیں ، مگر دولت ایمان سے ان کے دل مالا مال رہیں ، ان کے کپڑوں سے گو تمہیں بو آتی ہے ، مگر دل ذکر خدا سے مہک رہے ہیں ، یہ مخلص ہیں ، خدا پرست ہیں ، تم انہیں حقیر سمجھو ، تمہیں اختیار ہے ، مگر قدرت کی جانب سے یہ ملے شدہ امر ہے ، کہ یہی لوگ دنیا میں انقلاب پیدا کریں گے ، تم حرص وہوا کے بندے ہو ، تمہارے دلوں پر غفلت کے حجاب پڑے ہوئے ہیں ، تم اسلام کی برکات سے استفادہ نہیں کرسکتے ، تم جب تک دنیا کی ان کثافتوں میں پڑے ہوئے ہو ، صحبت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیضاب نہیں ہو سکتے ، اور تم ہرگز اس قابل نہیں ہو کہ پیغمبر مخلص مساکین کو چھوڑ کو تم مغرور اور متکبر انسانوں کے ساتھ بیٹھے اٹھے ۔