سورة الكهف - آیت 8

وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو کچھ اس پر ہے اسے ہم ختم کر کے ایک ہموار میدان بنا دیں گے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سورہ کہف کی دس آیتیں : (ف ١) ابتدا کی ان دس آیتوں میں جو معارف بیان فرمائے ہیں ان کو سمجھ لینے کے بعد گمراہی کا کوئی احتمال نہیں رہتا ، اور قلب ودماغ انواروصداقت سے مستنیر ہوجاتے ہیں ذلیل میں یہ معارف درج ہیں ۔ ١۔ قرآن حکیم اللہ کی کتاب ہے ، اس میں کسی قسم کا الجھاؤ نہیں مطالب واضح اور صاف ہیں ۔ ٢۔ یہ ہماری تمام ضروریات دینی کی کفیل ہے ، اس صحیفہ قیم کے بعد مزید تجدید وبعثت کی ضرورت نہیں ۔ ٣۔ توحید کی راہ استقامت اور سلامت روی کی راہ ہے ، مسلمان کا نصب العین ہمیشہ یہی رہے گا کہ ایک خدا کے سامنے جھکے ، ٤۔ عقیدہ شرک کی تمام صورتیں اور شکلیں غیر علمی اور غیر یقینی ہیں اور اللہ کی تقدیس پر اتہام وافترا ہے ۔ ٥۔ جناب رسالت پناہ امت کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں ، ہمارے لئے ان کے دل میں بےحد کرب وبے چینی تھی ، (آیت) ” فلعلک باخع نفسک “۔ میں اسی جانب اشارہ ہے اس لئے آپ کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے مکمل اور تشفی بخش ہے ۔ ٦۔ دنیا کی آرائش وزینت ناپائدار اور فانی ہے مقصود یہ ہے کہ ہم دنیا میں رہ کر آیندہ زندگی کے لئے تیاری کریں ۔ ٧۔ اللہ کے نیک بندے ابتلاء کے وقت مایوس نہیں ہوتے ، اور اللہ سے ہدایت وراہنمائی کی توفیق چاہتے ہیں ، کیا یہ حقائق ایسے نہیں کہ انسانیت کو فروغ دیں ، اور مومن کو ہر نوع کی گمراہیوں سے بچا لیں ؟ حل لغات : باخع : جان کھونے والا ۔ جرزا : زمین بےگیاہ ، بنجر ، غیر آباد ، ناقابل زراعت ۔ الرقیم : وہ جگہ ہے ، جسے بائبل میں ’ راقیم ‘ کہا گیا ہے ، وہ تختی جس پر اصحاب کہف کا قصہ اور ان کے نام لکھے ہوئے تھے ۔