سورة الإسراء - آیت 67

وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب تمہیں سمندر میں تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کے سوا وہ تمام معبود جنہیں تم پکارتے رہے تھے گم ہوجاتے ہیں پھر جب وہ تمہیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو اس سے روگردانی کرلیتے ہو (حقیقت یہ ہے کہ) انسان بڑا ہی ناشکر گزار ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فطرت انسانی کا اقرار : (ف ١) انسانی فطرت ہے کہ مصائب ومشکلات کے وقت دل کی تمام قوتیں بیدار ہوجاتی ہیں ، اور ایمان کے مخفی نقوش جو ہواہوس کے توغل کی وجہ سے دب جاتے ہیں ابھر آتے ہیں ، جب کہ مصیبت کے بادل مطلع قلب پر اضطراب وانتشار بن کر چھا جاتے ہیں ، توحید الہی کے عقدوں کو کھلنے کا موقع ملتا ہے ، اسرار منکشف ہوتے ہیں ، اور دل کی گہرائیوں میں یقین چمکنے لگتا ہے ، اس آیت مین اس کیف وحال کی جانب قرآن حکیم نے انسان کو متوجہ کیا ہے ، اور فرمایا ہے جب تم تکلیفوں اور مصیبتوں میں اللہ کو یاد کرتے ہو ، اور اس کے نام کے ساتھ تسلی وتسکین حاصل کرتے ہو تو عافیت وامن کی حالت میں کیوں اس حقیقت کو فراموش کردیتے ؟ کیا وہ خدا جس نے تمہیں مشکلات سے نجات دی ہے پھر تمہیں مشکلات میں نہیں پھنسا سکتا ؟ تم عذاب الہی سے اپنے تئیں محفوظ خیال کرتے ہو ؟ جس نے جنگل کی تاریکیوں میں تمہاری راہنمائی کی ، متلاطم سمندر سے تمہاری کشتی کو پار لگایا اور اگر وہ زمین میں تمہیں دھنسا دے تو یہ اس کی قدرت میں ہے ، اس طرح وہ تمہیں سمندر میں غرق بھی کرسکتا ہے ، یہ سب اس کی قدرت کا ادنی کرشمہ ہے ، جب انسانی بےچارگی اور بےبسی کا یہ عالم ہے تو پھر جو لمحہ عافیت سے گزر جائے اسے اللہ کی بخشش اور نوازش سمجھنا چاہئے کہ اس نے ہمیں مہلت دی ، اور ہمارے گناہوں کی ہمیں فی الفور سزا نہیں دی ۔