وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اور گنتی کے چند دنوں (292) میں اللہ کی یاد میں مشغول رہو، پس جو کوئی دو دن میں جلدی چلا گیا (293) اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جس نے جلدی نہیں کی اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، اس کے لیے جو متقی ہے، اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو کہ تم لوگ اسی کے پاس جمع کیے جاؤ گے
(ف ١) مکہ والے تعجیل کی صورت کو برا جانتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو رعایت بخشی کہ اگر وہ جلد فارغ ہو سکے ، اس سے تو کوئی مضائقہ نہیں اور اس طرح اگر تیسرے دن پر اٹھا رکھے تو بھی حرج نہیں دونوں صورتوں میں جائز ومباح ہیں ۔ مکہ والے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر اصرار کرتے تھے اور بڑی بڑی چیزوں کو فراموش کردیتے تھے ، وہ تاجیل وتعجیل کو تو بڑی اہمیت دیتے تھے ، لیکن توحید ان کے نزدیک بےوقعت چیز تھی ، اہتمام بالصغائر اور تساہل عن الکبائر ، یہ وہ مرض ہے جو مردہ اور بےحس قوموں میں پیدا ہوجاتا ہے ، وہ مقاصد واصول کو پس پشت ڈال دینے میں کوئی باک نہیں سمجھتے اور غیر اہم جزئیات کو اہمیت دیتے ہیں اور اسی کو دین ومذہب کا نام دینے لگتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان جزئیات کو بالخصوص بیان فرمایا اور بتایا کہ ان کا درجہ بہرحال جزئیات سے زیادہ نہیں ۔ اصل شے تقوی وصلاح ہے ، جو تم میں نہیں اور جس کے حصول کے لئے تمہیں کوشاں رہنا چاہئے ،