سورة الإسراء - آیت 15

مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

جو کوئی راہ راست (٨) کو اپناتا ہے تو وہ اپنے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے اور جو کوئی گم گشتہ راہ ہوجاتا ہے تو اس کا وبال اسی کے سر ہوتا ہے، کوئی شخص بھی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں ڈھوتا ہے، اور ہم جب تک اپنا رسول نہیں بھیج دیتے ہیں (کسی قوم کو) عذاب (٩) نہیں دیتے ہیں۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) اسلامی قانون مکافات یہ ہے ، کہ ہر شخص بجائے خود اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے ، اس لئے تناسخ غلط ہے ، اور ہدیہ وکفارہ بھی صحیح نہیں ، ہر شخص اپنے اعمال کا جوابدہ ہے کوئی شخص کسی کے کام میں نہیں آسکے گا ۔ ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا﴾سے مراد یہ ہے کہ عذاب کے لئے تکذیب کی ضرورت ہے ، اور تکذیب کے لئے پیغام کی حاجت ہے ، اس لئے ضرور ہے کہ عذاب سے قبل اتمام حجت ہوچکے ، تاکہ انہیں یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ ہم نے اعمال صالحہ کے لئے مقدور بھر کوشش کی تھی اور ہمیں ناحق عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔ یہ یاد رہے ، کہ عذاب سے مراد تمام تکالیف نہیں ، نہ عادی مصائب مقصود ہیں ، بلکہ عذاب وہ ہے جسے متعین طور پر عذاب کہا جا سکے ، جس کے متعلق تصریحات ہوں کہ یہ عذاب ہے ۔ دوسری بات غور طلب یہ ہے کہ ﴿نَبْعَثَ ﴾سے غرض یہ نہیں کہ ہر عذاب سے قبل ایک نبوت کا ظہور ضروری ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہر عذاب سے قبل اتمام حجت ضروری ہے ، مثلا اس زمانہ میں اگر عذاب آئے تو یہ کسی نئی نبوت کے انکار کا نتیجہ نہ ہوگا ، بلکہ اس لئے عذاب آئے گا کہ خدا کا پیغام اسلام کی شکل میں موجود ہے ، اس کو تسلیم نہیں کیا گیا ، اور اس کی بےحرمتی کی گئی ہے ۔