سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
(تمام عیوب و نقائص) سے پاک (١) ہے وہ جو اپنے بندے (محمد) کو رات کے وقت مسجد حرام سے اس مسجد اقصی تک لے گیا جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
روح اور جسم کی انتہائی پرواز : (ف ١) عین اس وقت جب مکہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام لیواؤں کو ناقابل برداشت تکلیفیں دی جارہی تھیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وطن مالوف سے نکال باہر کرنے کی سازشیں کی جارہی تھیں ، عین اس وقت جب زمین والوں نے گلشن رسالت کو برباد کردینے کا تہیہ کرلیا تھا ، جب یہ طے پا چکا تھا ، کہ اس شمع ہدایت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گل کردیا جائے ، آسمان پر آپ کے عروج وارتقاء کے سامان ہو رہے تھے ، قضاء قدر کے دفاتر میں معراج وتقدم کے ہنگامہ خیز چرچے تھے ۔ اللہ کی مشیت نے آپ کو اٹھایا اور مسجد اقصے تک لے اڑی پرواز اور اڑان کا یہ منظر اس لئے تھا ، تاکہ آپ کو فتوحات اسلامی کی وسعت کا اندازہ ہو کفار ، ومعاندین کو معلوم ہو کہ یہ شخص تنگنائے وطن سے نکل کر شام کے مرغزاروں تک پھیل جائے گا ، یعنی جس شخص کو تم وطن سے نکال رہے ہو ، ساری دنیا اس کا وطن قرار پائے گی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان تک گئے ، اور عجب راستار کو چیرتے ہوئے جناب باری تک پہنچ گئے ، باتیں ہوئیں ، اسرار دین سمجھائے گئے نمازیں عطا ہو میں شریعت کی تفصیلات دی گئیں ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ قرب آلہی کا بلند ترین مقام حصہ میں آیا ۔ یہ امر کہ یہ پرواز جسم وجسد کے ساتھ تھی ، یا روح و نسحہ کے ساتھ محل بحث ونظر ہے ، ائمہ حدیث وتفسیر کی اکثریت معراج جسمانی کی قائل ہے اور میں سمجھتا ہوں ‘ عارف باللہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے ایک جملہ میں اس تمام کدو کاوش کا فیصلہ کردیا ہے ، ان کی قوت ایمانی نے اجتہاد ونظر کا وہ مرحلہ طے کرلیا ہے ، ان کی قوت ایمانی نے اجتہاد ونظر کا وہ مرحلہ طے کرلیا ہے جو عقل وفکر کو سعی بلیغ کے بعد بھی میسر نہ ہوسکا وہ یہ ہے کہ ” انا اصدقم با بعد منہ ، اصدقم بخیر من السمآء “۔ یعنی جب میں نے آپ کی نبوت ورسالت کے کوائف کو مان لیا ، جب یہ تسلیم کرلیا ، کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں ، کتابیں عطا کی جاتی ہیں ، اور لاہوت وناسوت میں ایک رشتہ محبت ہے ، تو پھر معراج میں کیا استحالہ ہے ؟ خدا نے قدیر اپنے محبوب ترین بندے کو اپنے ہاں بلا رہا ہے ، اس میں کیا اعتراض ہے ، فلسفہ وعقل کی شام بحثیں بےسود ہیں ، جو خط زمین کو حرکت دے سکتا ہے جو آفتاب کو محوری گردش پر مجبور کرسکتا ہے جس کے ادنی اشارہ پر تمام انجم گھوم رہے ہیں کیا وہ ایک لطیف وسبک جسم کو آسمان پر نہیں اٹھا سکتا ۔ انسان کی تو یہ ہمت ہے کہ فضائے آسمانی میں اڑ رہا ہے ، اور طیاروں کی ایجاد پرانی ہوچکی ، اس نوع کے پر بن گئے ہیں جنہیں لگا لو اور پرندوں کی طرح اڑتے پھر ، چاند اور مریخ تک پہنچنے کی جدوجہد ہو رہی ہے کیا خدا کی وسعتوں میں یہ نہیں کہ اپنے محبوب کو اپنے یہاں بلا لے معلوم ہوا اس باب میں فلسفہ اور سائنس کی بحثیں بیکار ہیں ، البہ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ قرآن کیا کہتا ہے ، احادیث میں کیا مذکور ہے ، اور ائمہ حدیث وتفسیر کی اکثریت کی رائے کیا ہے ؟ سو میں کہہ چکا کہ افسوس معراج جسمانی کی تائید میں احادیث میں انداز بیان اس نوع کا ہے کہ ارتقاء روحانی کی تائید نہیں ہوتی ، ائمہ تفسیر ہی کثرت کے ساتھ معراج جسمانی کے قائل ہیں ، تاویل کے مجتہد اعظم علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ سے خدشہ ہو سکتا تھا لیکن وہ بھی جسمانی معراج کے معترف ہیں اور نہایت رفیق دلائل پیش فرمائے ہیں ۔ اصل میں اس قسم کے اعتراضات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب بصیرت دینی سے محرومی ہو اور دماغ پر دیو عقل مسلط ہو ۔ حل لغات : سبحن : تقدیس کے لیے ہے ، یعنی معراج کے سلسلہ میں جس قدر اعتراضات عقل کی واماندگیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے اللہ ان سے اعلی و بلند ہے ۔