أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
روزے کی رات میں بیویون کے ساتھ جماع کرنا تمہارے لیے حلال (267) کردیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو، اللہ کو یہ بات معلوم تھی کہ تم لوگ اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے، پس اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف کردیا، اب اپنی بیویوں کے ساتھ ملا کرو، اور جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا اسے طلب کرو، اور کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری کالی دھاری سے جدا ہوجائے، پھر روزے کو رات تک پورا کرو، اور جب تم مسجدوں میں حال اعتکاف میں ہو تو اپنی بیویوں سے مبارشرت نہ کرو، یہ اللہ کے حدود ہیں ان کے قریب نہ جاؤ، اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی آیتوں کو لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ تقوی کی راہ اختیار کریں
روزہ کا مقصد : (ف ٣) ازدواجی تعلقات کو رات کے وقت برقرار رکھتا قرآن حکیم نے جائز ومباح قرار دیا ، اس لئے کہ روزہ کا مقصد رہبانیت یا فاقہ نہیں ، بلکہ تحسین اخلاق ہے اور کیا بیوی سے پیار بہترین اور پاکیزہ تر حسن اخلاق نہیں ؟ حدیث میں جو آتا ہے کہ دن کے وقت بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ازواج مطہرات سے محبانہ پیش آتے اور بوس وکنار میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے تھے تو اس کے یہ ہیں کہ روزہ زاہدانہ یبوست نہیں ، خشک ریاضت نہیں بلکہ ہر خواہش میں اور ہر جذبہ میں تابحد لطافت اعتدال پیدا کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کھانا پینا ممنوع ہے لیکن نہانا دھونا اور دیگر پاک تفریح کی چیزوں کی اجازت دیتا ہے اسی طرح صنفی جذبات کی تکمیل تو ممنوع ہے دن کو البتہ لطافت کے ساتھ ان کے اظہار میں کوئی حرج نہیں ، رات کو بھی تکمیل میں کوئی مضائقہ نہیں ، مطلب بہرحال یہ ہے کہ روزہ ایک قسم کی شگفتہ ریاضت ہے اسلام فطرت انسانی کا بہترین نمونہ اور نباض ہے اس میں اس کی تمام کمزوریاں ملحوظ رکھی گئی ہیں اور کہیں بھی ناقابل برداشت تکلیف نہیں دی گئی ، وظائف زوجیت بھی ایک خلقی وفطری ضرورت ہے ، جس سے بےنیازی ناممکن ہے اور یا مضر ہے اس لئے اس ناگریز حقیقت کو ان الفاظ میں ظاہر کیا کہ تم میں اور عورتوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے کس طرح تم ایک دوسرے سے الگ رہ سکتے ہو ؟ عورت کا درجہ : (ف ١) (آیت) ” ھن لباس لکم وانتم لباس لھن “۔ کہہ کر فلسفہ تدبیر منزل کے بہترین نکات بتائے ہیں ، قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ باتوں ہی باتوں میں معاشرت واخلاق کی مشکل ترین گتھیاں سلجھا دیتا ہے ، لبات کی تین اغراض ہوتی ہیں ۔ : (١) بچاؤ ۔ (٢) اخفائے ستر ۔ (٣) تزئین وآرائش ۔ اس لئے گویا مرد و عورت کی حیثیت صحیح معنوں میں شریک حیات کی ہے ، دونوں ایک دوسرے کے لئے لباس کی مانند زمانہ کے سرد وگرم کا مقابلہ کرنے والے ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے عیب پوش باعث عزت وآبرو ہیں اور دونوں کے وجود سے سوسائٹی کی عزت وآبرو ہے ، کس خوبصورتی سے قرآن حکیم نے دونوں کے منصب وفرائض کی تشریح فرمائی ہے ، تاکہ ان میں کوئی ایک دوسرے سے بےنیاز نہ رہ سکے ۔ عام مسائل : روزہ میں سحری دیر سے کھانا اور افطار میں جلدی کرنا مسنون ہے کیونکہ مقصد اطاعت ہے مشقت نہیں ، کھانے پینے کی چیزیں استعمال کرنا ممنوع ہے ، مسواک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ رات کو تراویح پڑھنا بہت اجر کا باعث ہے ، حدیث میں آتا ہے ، آپ نے فرمایا کہ من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذبنہ “۔ یعنی جو شخص رمضان میں قیام لیل کو اختیار کرے گا اور شرائط عبادت کو ملحوظ رکھے گا ۔ حل لغات : تختانون : مادہ خیانت بمعنے نقصان یعنی تم اپنے جائز فطری حق سے محروم تھے ۔