سورة البقرة - آیت 183

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض (262) کردئیے گئے ویسے ہی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فرضیت صیام : (ف ١) صیام کے لفظی معنے رکنے اور باز رہنے کے ہیں ، اصطلاح قرآن میں مراد ہے روزہ رکھنا یعنی ضبط نفس کی بہترین شکل اسلام سے پہلے روزہ رکھنے کا رواج کم وبیش تمام قوموں میں موجود تھا اور سب اس کی تقدیس کے قائل تھے ، روما والے بھی روزہ رکھتے تھے اور اہل کتاب بھی ، ہنود کی کتابوں میں بھی برت کا ثبوت ملتا ہے لیکن جس تکمیل کے ساتھ اسلام نے روزہ کا مفہوم پیش کیا ہے وہ پہلی قوموں میں نہیں ملتا پہلے روزہ اور فاقہ میں کوئی فارق شے نہ تھی ، اسلام نے بتایا کہ روزہ سے مقصود فاقہ نہیں تزکیہ نفس ہے ۔ فرضیت صیام کا واقعہ ہجرت سے تقریبا دو سال بعد کا ہے اس لئے کہ اس میں ایک طرح کی روحانی ریاضت ہے اور جب تک نفوس میں اس اہم قربانی کے لئے ایک استعداد پیدا نہ ہوجاتی ، اس کی تلقین بےموقع تھی ، ان آیات میں اعلان فرضیت ہے اور یہ بتایا ہے کہ روزہ قدیم روایات ودستور کی ایک مکمل صورت ہے کوئی بالکل نئی چیز نہیں ، تاکہ مسلمانوں کے دل میں اس کی اہمیت پیدا ہوجائے ۔ روزہ کا فلسفہ : یہ بتایا ہے کہ (آیت) ” لعلکم تتقون “۔ یعنی روزہ تم میں تقوی واصلاح کی محض قوتوں کو پیدا کرنے کے لئے فرض کیا گیا ہے ، اسلامی علم الاخلاق میں تقوی اور روزہ کی حیثیت ایک ہے ، تقوی کے معنی تمام ممکن محاسن کا حصول اور تمام برائیوں سے احتراز جس کے معنی یہ ہیں کہ روزہ اخلاق وروح کی آخری معراج ہے ، دیکھئے تو کامل ایک ماہ تک ضبط خواہش کتنا مشکل کام ہے لیکن مسلمان صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے تیار ہوجاتا ہے ۔ خالص روحانی واصلاحی تدبیر سے کھانے پینے کی بےاعتدالیوں اور بےضابطگیوں پر ایک ناقدانہ نظر اور ان کا مکمل مداوا ، روزہ دار اور غیر روزہ دار میں ایک محسوس اور بین فرق ہوتا ہے ، حدیث میں آیا ہے ” روزہ دار وہ ہے جو گالی گلوچ سے پرہیز کرے اور اگر اسے کوئی مجبور کرے تو کہہ دے کہ میں صائم ہوں “ روزخالص اللہ کے لئے ہے ، اس لئے اللہ فرماتا ہے ۔ ” الصوم لی وانا اجزی بہ “ یعنی روزہ دار بھوک پیاس کی تلخیوں کو صرف میرے لئے برداشت کرتا ہے اس لئے اسے مخصوص اجر سے نوازوں گا یعنی مسلمان گرمیوں کے موسم میں جن کے ہونٹ سوکھ رہے ہوں ‘ پیاس کی شدت بےچین کر رہی ہو اور اس طاقت ووسعت میں ہو کہ برفاب کے کو زے منہ سے لگا لے ، مگر خدا سے ڈرتا ہے اور پیاس ہی کو آب سرد سمجھ کر پی جاتا ہے اور کامل ایک ماہ تک اس ریاضت کو جاری رکھتا ہے ، تاکہ خدا کے لئے بھوک اور پیاس کی سختیوں کو برداشت کیا جا سکے ، روزہ امیر اور غریب کو ایک ماہ کے لئے ایک سطح پر لے آتا ہے ، سب خدا کی راہ میں بھوک اور پیاسے رہتے ہیں ۔ گویا روزہ مساوات انسانی کا ایک عظیم مظاہرہ ہے اور خالص تربیت ہے جس سے مقصود سال بھر کی تیاری ہے کہ روزہ دار غریبوں کی بھوک اور پیاس کا خیال رکھے ۔