نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
آپ میرے بندوں کو خبر (٢٣) کردیں کہ میں ہی بڑا معاف کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہوں۔
خدا اصل میں غفور ورحیم ہے ! (ف ١) ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے ارشاد فرمایا ہے کہ صفات میں حقیقتا عفو ومغفرت ہے ، اللہ تعالیٰ چاہتے تو یہی ہیں کہ اس کے بندے ہمیشہ اس کے انعامات سے متمتع رہیں ، اور اس کی رحمتیں ابدا اس کے بندوں پر چھائی ہیں ، مگر جب بندے دائرہ عبودیت سے نکل جائیں ، اور اللہ کے کرم وعفو سے استفادہ نہ کریں تو پھر اس کے غضب میں جوش پیدا ہوتا ہے اور اس کا غصہ نافرمانوں پر بھڑکتا ہے ، یہ غصہ اور غضب بھی درحقیقت غفران ورحمت کا نتیجہ ہے ، جس طرح والدین ناراض ہوتے ہیں اور ان کی ناراضگی میں بھی شفقت کا ایک رنگ ہوتا ہے ، اسی طرح اللہ جو والدین سے زیادہ رحیم ہے ، جب ناراض ہوتا ہے تو اس کی ناراضگی میں بھی الوان شفقت کی جھلک ہوتی ہے ۔ یہ عجب لطیفہ ہے کہ رحمت کو تو مؤکد ترین انداز میں ذکر فرمایا ہے ۔ (آیت) ” انی ، انا ، وغفور ، ورحیم “ ، کی تکرار ، اور پھر الف لام کے ساتھ تعرفی وتخصیص ، مگر عذاب الیم کو بیان کرنے میں اس قدر تاکیدات کا اظہار نہیں فرمایا ، جس سے صاف ظاہر ہے کہ رحمت کا پہلو بہت غالب ہے ، اس کا دریائے رحمت جب جوش میں آجائے تو پھر عذاب وثواب کس قطار وشمار میں ۔ حل لغات : غل : کینہ ، خیانت ، وکدورت ، سرر : جمع سریر ، تخت ، نصب : تکان ، تھکن ، تکدر باتکلیف وجلون : خوفزدہ ۔