يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے ایمان والو ! مقتولین کے بارے میں تمہارے اوپر قصاص (257) کو فرض کردیا گیا، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، اور عورت کے بدلے عورت، اگر کسی (قاتل) کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کردیا جائے، تو مقتول کے ورثہ دیت کے مطالبہ میں نرمی سے کام لیں، اور قاتل اس کی ادائیگی میں خوش اسلوبی سے کام لے، یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک قسم کی آسانی اور رحمت ہے، اب جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے گا، اس کے لیے بڑا دردناک عذاب ہوگا
آزاد کے بدلے آزاد : (ف ١) اسلام سے پہلے قصاص وانتقام کا مفہوم بھی صاف نہیں تھا یہودی اگر قاتل امیر ہوتا تو چھوڑ دیتے اور اگر غریب ہوتا تو کچھ روپیہ لے کر معاف کردیتے اور اگر غلام ہوتا تو پھر ان کی شریعت نوازی جوش میں آجاتی جس کے معنی یہ ہیں کہ تعزیرات کا باب صرف غربا کے لئے ہے اور روپیہ خدا کے قانون میں نرمی پیدا کرسکتا ہے ، قریش مکہ بھی اس مذموم ذہنیت سے آلودہ تھے ، ان کے سردار وصنادید بھی محض سرمایہ داری کے بل پر ہر تعزیر سے بچ جاتے ، قرآن حکیم جو عدل وانصاف کا اعلان ہے ، بھلا کب اس ظلم اور جنبہ داری کو برداشت کرسکتا تھا ۔ چنانچہ اس نے فرمایا کہ قصاص کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں آزاد کے بدلے آزاد مارا جائے اور عزت وسرمایہ کو کوئی درجہ نہ دیا جائے ، اس لئے کہ خدا کے ہاں سب کا درجہ یکساں ہے اس کے کسی ایک بندے کو حقوق زندگی سے محروم کردینا بہرحال سزاوار تعزیر ہے ۔ عفو بہتر ہے : قاتل کے ورثاء اگر مقتول کو کچھ دے دلا کر راضی کرلیں یا مقتول کے ورثاء انتقام نہ لینا چاہیں اور معاف کردیں تو فرمایا یہ بہتر ہے ۔ (آیت) ” من اخیہ “ کہہ کر گویا ترغیب دی ہے کہ عام حالات میں معاف کردیا کرو ، اخوت وہمدردی کا یہی تقاضا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اسلام عفو کو بہرحال مقدم سمجھتا ہے ، بات بھی یہی درست ہے کہ تاحد مقدور حسن سلوک بجائے خدا ایک کڑی سزا ہے جس اثر نہایت گہرا ہوتا ہے مگر ہر حالت میں نہیں بعض حالات میں ۔ قصاص ہی میں عافیت ہے : وہ طبیعتیں جو شریر اور فتنہ پرداز ہیں وہ کسی طرح معافی سے متاثر نہیں ہوتیں ‘ بلکہ بعض دفعہ اس قسم کی نرمی کا اثر ان کے طبائع پر الٹا پڑتا ہے وہ اس حسن سلوک کو جبن وبزدلی سے تعبیر کرتی ہیں ، ان کا علاج بجز انتقام وقصاص کے کوئی نہیں ، تعزیرات کے باب میں اسلام کی خصوصیت دیگر مذاہب سے یہ ہے کہ اس میں عام نفسیات کا پوری طرح خیال رکھا جاتا ہے جن مذاہب میں ” دانت کے بدلے دانت “ کی کی سزا مقرر ہے اور معافی کے لئے کوئی گنجائش نہیں وہ بھی فطرت انسانی سے دور ہیں اور وہ جو ہمیشہ ہمہ عفو ہے ‘ اسے بھی صحیح نہیں کہا جاسکتا ، اسلام میں یہ جامعیت ہے کہ وہ ہر شے کا لحاظ رکھتا ہے ، اسے معلوم ہے کہ بعض دفعہ معاف کردینا نتائج کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہوتا ہے اور بعض دفعہ سزا دینا جب فطرت انسانی قبول وتاثر کے لحاظ سے مختلف ہے تو پھر ایک سچے فطری مذہب کے لئے اس کی رعایت رکھنا نہایت ضروری ہے ” دشمن سے بھی پیار کرو “۔ نہایت اچھے لفظ ہیں ، یقینا ان سے بلند اخلاق کا اظہار ہوتا ہے لیکن عملی دنیا میں اس پر کہاں تک عمل ہو سکتا ہے ، اس کا پتہ لگانا ہو تو یورپ کا موجودہ طرز سیاست دیکھو اس میں جس اصول پر عمل کیا جاتا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ ” دوستوں کو بھی دشمن سمجھو “۔ کیا اس حقیقت کے بعد بھی مسحی مبلغین اس تعلیم پر نازل کریں گے جس پر کبھی عمل نہیں کیا گیا ، عیسائیت اور اسلام میں بڑا امتیاز یہ ہے کہ اخلاق وتعزیرات کے بارے میں عیسائیت نے صرف فرد کو ملحوظ رکھا ہے جماعتی مصالح اس کے پیش نظر نہیں ، مگر اسلام نے فرد وجماعت ہر دو کی تکمیل کو مد نظر رکھا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات بہرحال قابل عمل ہیں ، مثلا یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک کامل اور بردبار انسان شریر کا مقابلہ نہ کرے اور مار کھاتا رہے ، لیکن شریر سے یہ توقع کیوں رکھی جائے کہ وہ بھی شرافت سے متاثر ہوگا ، کیا یہ نری سادگی نہیں ؟ اور پھر یہ اصول قوموں میں رائج کیسے ہو سکتا ہے ؟ یورپ کے مستعمرانہ اعتراض ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ نہی پر عمل کرے ، یہ عجیب بات ہے کہ دولوگ جنہیں عفو وصلح کی تعلیم دی گئی تھی وہی سب سے بڑھ کر ظالم وسفاک ثابت ہوئے ، ان کی تاریخ کا ہر ورق بربریت ووحشت کا بدترین نمونہ ہے ، اور وہ جنہیں بقول عیسائیوں کے سوا جہاد اور قصاص کے کچھ سکھایا نہیں گیا اور دنیا میں سب سے زیادہ شائستہ ‘ غیر متعصب اور صلح جو رہے ۔ کیا یہ واقعہ نہیں ؟ حل لغات : القصاص : بدلہ ، مجازات ، انتقام ۔ الحر : آزاد ۔ العبد غلام ۔