سورة البقرة - آیت 177

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

حقیقت معنوں میں نیکی (255) یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق و مغرب کی طرف پھیر لو، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ آدمی ایمان لائے اللہ پر، یوم آخرت پر، فرشتوں پر، قرآن کریم پر، اور تمام انبیاء پر، اور اپنا محبوب مال خرچ کرے، رشتہ داروں پر، یتیموں پر، مسکینوں پر، مسافروں پر، مانگنے والوں پر، اور غلاموں کو آزاد کرانے پر، اور نماز قائم کرے، اور زکاۃ دے، اور جب کوئی عہد کرے تو اسے پورا کرے، اور دکھ اور مصیبت میں اور میدانِ کارزار میں صبر سے کام لے، یہی لوگ (اپنے قول وعمل میں) سچے (256) ہیں، اور یہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نیکی کا مفہوم : (ف ١) عام لوگ رسوم ظاہری تک ہی تقوی کا مفہوم محدود رکھتے ہیں اور دیگر حالات پر غور نہیں کرتے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب دین کی روح باقی نہ رہے اور قشہ وظاہر پر سختی سے عمل ہو ، جب کسی قوم کی یہ حالت ہو تو سمجھ لیجئے وہ حقائق دین سے قطعا محروم اور برائے نام مسائل پر محض رکھ رکھاؤ کے لئے عامل ہے ، نزول قرآن مجید کے وقت یہودیوں اور عیسائیوں کی بالکل یہی کیفیت تھی فسق وفجور میں ہر وقت سرشاری کے باوجود ایک دوسرے کو کافر کہتے ، چھوٹے چھوٹے مسائل پر جھگڑتے ، معمولی اختلافات ڈالتے یا اختلاف عمل ان کے لئے ناقابل برداشت ہوجاتا لیکن عملی زندگی میں بڑی سے بڑی بدمعاشی ان کے لئے نہ صرف گوارا ہوتی بلکہ راحت جان ، تحویل قبلہ کے موقع پر ان لوگوں نے شور مچا دیا کہ دیکھئے مسلمان بدل گئے ، انبیاء کے مسلمہ قبلہ سے روگردان ہوگئے اور الحاد وزندقہ میں مبتلا ہوگئے ، قرآن حکیم نے اس اعتراض کے متعدد جواب دیئے اور آخر جواب وہ دیا جو ان آیات میں مذکور ہے کہ مدار مذاہب ظاہر شعائرہ رسوم نہیں ، ان کس مغز اصل ہے ، بیت المقدس یا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لینا ہی کافی نہیں ‘ بلکہ ان کے لئے ضروری ہے لوازم کا بھی خیال رہے کیا تم سمجھتے ہو کہ بیت المقدس کو قبلہ مان کر تم شریعت کی ہر ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہو ؟ کیا اس کے بعد تمہارے لئے ہر برائی جائز ودرست ہوجاتی ہے ؟ کیا تمہارا خیال ہے کہ جب تک مشرق ومغرب کی تعیین نہ ہو ، نیکی کا مفہوم ہی غلط رہتا ہے ؟ نہیں ، کعبہ ہو یا بیت المقدس ، ان کو قبلہ بنانے کا مقصد یہ نہیں جو تم سمجھتے ہو کہ ظواہر پر اکتفا کردیا جائے ، اور بس بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے دل میں شریعت کا پورا پورا احترام ہو ، ظاہر کے ساتھ باطن کی باریکیوں پر بھی تمہاری نظر ہو ، جذبہ عمل پورے جوش کے ساتھ کار فرما ہو ، جہاں دل کی گہرائیاں ایمان باللہ کی روشنی سے روشن ہوں ‘ وہاں اس کے نتائج بھی عیاں ہونے چاہئیں ، تم ادعائے پاک باطنی کے ساتھ بظاہر بھی پاک بننے کی کوشش کرو ۔ دس احکام : اس توضیح کے بعد وہ دس چیزیں بتائیں جو اساس الدین ہیں اور جو حقیقی معنوں میں صلاح وتقوی کا معیار ہیں اور جن سے صدق وصفا کو واقعی طور پر پرکھا جا سکتا ہے ۔ (١) ایمان باللہ ، یعنی اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ ، اس سے پوری پوری محبت ۔ یہ احساس اخلاق ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے بےنیازی قطعا صحیح اخلاق پیدا کرنے میں ممدو معاون نہیں ہو سکتی ۔ (٢) ایمان بالاخرۃ : یعنی مکافات عمل کے نظام پر محکم ایمان ۔ ظاہر ہے جب تک اعمال کے اثمار ونتائج کو قطعی نہ مانا جائے ، نیکی کے لئے دل میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ برائی سے کوئی خوف پیدا ہو سکتا ہے ۔ (٣) ایمان بالملئکۃ : یعنی فرشتوں کے وجود وظائف پر ایمان ہو ، یہ ایمان بالکتب کی تمہید ہے ۔ (٤) ایمان بالکتب : یعنی خدا کے نوشتوں پر ایمان کہیں ہوں ، کسی زبان میں ہوں ، اللہ کا کوئی رسول لے کر آیا ہو ۔ (٥) ایمان بالنبین : یعنی سلسلہ انبیاء کی تمام کڑیوں کو ماننا ، تمام فرستادوں کا بلاتخصیص احدے احترام کرنا کہ تعصب پیدا نہ ہو اور سارے انسان متحد ومتفق ہو کر رہ سکیں ۔ (٦) خدا کی راہ میں دینا یعنی بخل وامساک کی عادت نہ ہو ، فیاضی وسیر چشمی پیدا کرے ، اپنے اقربا کی حتی الوسع مدد کرے ، مسکینوں اور یتیموں کی ضروریات کو پورا کرے ، مسافر اور دیگر سائلین کی حاجات کا مداوا بننے اور غلاموں کی آزادی میں ساعی ہو ۔ (٧) اقامت الصلوۃ : یعنی پابندی اور شرائط ولوازم کے ساتھ نماز پڑھے ، تاکہ اس میں سچے معنوں میں روحانیت پیدا ہو ۔ (٨) اداء زکوۃ ۔ (٩) ایفائے عہد ۔ (١٠) صبر واستقامت : ظاہر ہے کہ جس میں یہ دس صفات ہوں گی وہ خدا کا محبوب ہوگا نہ وہ جو صرف ظواہر ورسوم پر مغرور ہو ، خطاب یہود سے ہے کہ دیکھو یہ چیزیں مسلمانوں میں موجود ہیں یا نہیں ، اگر موجود ہیں تو معلوم ہوا تحویل قبلہ نے ان کے اعمال اور ان کی خدا پرستی میں کوئی مضرت پیدا نہیں کی ۔ حل لغات : الرقاب : جمع رقبۃ ، گردن یعنی وہ جس کی گردن میں غلامی کا جوا ہو ۔