وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ
اور ہم ہواؤں (١٤) کو بھیجتے ہیں جو بادلوں کو پانی سے بوجھل بنا دیتی ہیں، پھر ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں، اور اسے تمہیں پلاتے ہیں، اور زمین میں تم اسے جمع نہیں کرتے ہو۔
(ف1) ان آیات میں تذکیر بآیات اللہ کے اصول کے موافق اللہ نے مظاہر مدبرت کی جانب توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ تم ان فطرت کے کرشموں پر غور کرو ، تمہیں یقین آجائے گا کہ اللہ نے ان چیزوں کو بےفائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے کا ایک مقصد ہے ، اس سلسلہ میں ایک عجیب چیز یہ بتائی ہے کہ ہوائیں جو پانی برساتی ہیں تو وہ پانی یہیں سے لیتی ہیں ۔ اور حاملہ عورت کی طرح وقت پر قطرات بارش کی ولادت ہوتی ہے ۔ یہ حقیقت اس وقت ظاہر فرمائی ہے جب عرب بارش کی متعلق صرف اس قدر جانتے تھے کہ آسمان پر دریا بہتے ہیں اور وہیں سے پانی آتا ہے اور ہوائیں اسی پانی سے بوجھل ہو کر برستی ہیں ، علاوہ ازیں تشبیہ کس قدر عجیب ہے گویا سورج اور پانی کی جنسی کارفرمائیوں کا نتیجہ ہے کہ ہوائیں اٹھائے اٹھائے پھرتی ہیں اور ایک وقت مقرر پر برس جاتی ہیں ۔