وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
اور جب ابراہیم نے کہا، میرے رب ! اس شہر کو پرامن (٢٤) بنا دے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی عبادت سے بچا لے۔
نقطہ توحید کی تعمیر ! (ف1)یہ اس وقت کی بات جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی تاسیس کی اخلاص وتوحید کی بنیاد رکھی ، جب قوم کے لئے ایک مرکز وحدت تعمیر کیا جب معبد عمومی نقطہ عبادت منصہ پر جلوہ گر ہوئے ۔ اس وقت قرب وجوار کے لوگوں میں بت پرستی کا رواج تھا لوگ غیر اللہ کی پوجا میں منہمک تھے ، اور اللہ کی چوکھٹ کو چھوڑ کر جبینوں کو غیروں کے آگے جھکایا جا رہا تھا ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی کہ مولا اس اخلاص وتوحید کے گھر کو دارالامن بنائیوکہ یہاں روحانی اور مادی بےچینیوں سے لوگ رہائی حاصل کریں ، مجھے اور میری اولاد کو توفیق دیجیو کہ لوگوں کو بس مرکز توحید پر جمع کردیں ، اور بت پرستی نہ کریں نیز اس غیر ذی ذرع آبادی کو جو میری اولاد کا مسکن قرار فرمایا ہے ، بارونق بنا ئیو ، اسے ایسا جاذب نظر بنا کہ لوگ کینچھے ہوئے دور دور سے اس کی زیارت کے لئے آئیں ، اور تیرا نام بلند کریں ، انہیں رزق کی نعمت سے سرفراز فرمائیو ۔ درمیان میں اللہ کی نعمت کا ذکر فرمایا ، کہ اس نے ہمیشہ میری دعاؤں کو سنا ہے ، اور مایوسیوں کے وقت انعامات سے نوازتا ہے ، اس وقت اولاد بخشی ہے ، جب عام لوگ مایوس ہوجاتے ہیں ، اور یقین افروز انداز میں فرمایا ہے کہ میرا رب یقینا دعاؤں کو سنتا ، اور قبول کرتا ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دعاء کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قلبی کیفیت کیا تھی ، لب ہل رہے تھے اور دل میں ایمان کود رہا تھا ، کہ دعاء قبول ہو رہی ہے حقیقت یہ ہے جب اللہ پر اس درجہ بھروسہ اور اعتماد ہو تو دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں ۔ حل لغات : الْأَصْنَامَ: بت ، جمع صنم ۔