مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ
جن لوگوں نے اپنے رب کا انکار کردیا ان کے کاموں کی مثال اس راکھ (١٤) کی ہے جسے ایک تیز آندھی کے دن ہوا اڑا کرلے جائے، اپنی کمائی کا کچھ بھی حصہ نہ بچا سکیں گے، یہی سب سے بڑی گمراہی ہے۔
شیرازہ اعمال : (ف2) اعمال کے لئے ایک شیرازہ کی ضرورت ہے ، اور جب تک یہ شیرازہ موجود نہ ہو ، اعمال میں غرض وترتیب پیدا نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ، کہ اعمال ضائع ہوجاتے ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے ، یہ شیرازہ ایمان صحیح ہے ، ایک دیوانہ ہے اس کے افعال کو کیوں آپ قابل اعتنا نہیں سمجھتے ، اور اس کی تمام حرکتیں کیوں عبث قرار پائی ہیں ۔ اس لئے کہ اس کے اعمال میں شیرازہ عقل موجود نہیں ، اسی طرح وہ شخص جو خیر وعمل صالح کے مفہوم سے آگاہ نہیں جو انسانیت کے صحیح پروگرام سے واقف نہیں کیونکر صالح قرار دیا جا سکتا ہے ، جبکہ اس کے اعمال میں شیرازہ ایمان موجود نہیں قرآن حکیم نے اس حقیقت کو نہایت عمدہ مثال میں بیان فرمایا ہے ، فرمایا ان کے اعمال عدم وزن اور ثبات وقرار کے لمحات سے یوں ہیں جیسے کوئی شخص پتھر پر راکھ کا ڈھیر جمع کر دے اور آندھی چلنے پر وہ سب کی سب اڑ جائے ، ان کے اعمال بھی اسی طرح کے ہیں ، وہ راکھ کے ڈھیر سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ، جب کفر ریاکاری کی آندھیاں چلتی ہیں تو اعمال کی راکھ اڑ جاتی ہے ، اور نشان تک باقی نہیں رہتا ۔