وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ
اور اہل کفر آپ سے اچھائی سے پہلے برائی کا مطالبہ (٦) کرتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے (عبرتناک) مثالیں گزر چکی ہیں اور بیشک آپ کا رب لوگوں کے ظلم کے باوجود ان کی بڑی مغفرت (٧) کرنے والا ہے، اور بیشک آپ کا رب بہت سخت سزا دینے والا بھی ہے۔
شدید العقاب کی تشریح : (ف ١) یعنی کفار مکہ میں یہ عیب ہے کہ وہ اسلام کی برکات سے بہرہ مند نہیں ہونا چاہتے ، بلکہ عذاب طلب کرتے ہیں ، اور یہ نہیں سوچتے کہ عذاب کا آجانا کیا مشکل ہے ، کیا اس سے پہلے نافرمانوں کو ہلاک نہیں کیا گیا ؟ کیا عادوثمود کی بستیاں اب تک ماتم کناں نہیں ، تکنے والے کیوں نہ خیال کرتے ہیں کہ وہ بالکل محفوظ ہیں ، اور انہیں ان کی نافرمانیوں کی سزا نہیں مل سکے گی ۔ جو لوگ خدا کے متعلق اسلامی تخیل کو قابل اعتراض ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اسلام کا خدا بہت سخت گیر ہے ، انہیں اس آیت پر غور کرنا چاہئے ۔ قرآن کہتا ہے ، وہ صاحب غفران ہے وہ باوجود گناہوں کے اس کا جوش مغفرت ہمیشہ عفر وکشش سے کام لیتا ہے البتہ جب نافرمانی حد سے متجاوز کر جائے اس وقت اللہ تعالیٰ سرکشی کی پوری سزا دیتا ہے ۔